کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 766
اس روایت میں ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین روزہ وقفہ کے بعد دوسری بار حجرہ شریفہ سے باہر تشریف لانے کی خبر دے رہے ہیں ۔ان تین دنوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی ان لوگوں کو نمازیں پڑھاتے رہے۔ جیسا کہ پہلی بار حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ باہر نکلنے سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نمازیں پڑھا یا کرتے تھے۔ یعنی اس سے پہلے بھی کئی دن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔ یہ تمام روایات صحیح ہیں ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ بھی موجود ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے انہیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ یہ آخری نماز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلمانوں نے ادا کی ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے دوران یا اس سے پہلے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔
یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حکم بھی تھا جس کا پیغام لیکر آپ کا قاصد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حکم نہیں پہنچایا تھا او رنہ ہی اپنے والد سے کہا تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ حکم دیا ہے۔ جیسا کہ یہ رافضی جھوٹے اپنی طرف سے افتراء پردازی کرتے ہیں ۔
ان جھوٹوں کا یہ کہنا کہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو حکم دیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز کے لیے آگے بڑھائیں ؛ ایک کھلا ہوا اور واضح ترین جھوٹ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا کوئی حکم نہیں کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے کیا جائے۔ اورنہ ہی آپ حکم دیا کرتی تھیں ‘اور نہ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ سے احکامات وصول کیا کرتے تھے۔ بلکہ آپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونماز کے وقت کی اطلاع دی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام حاضرین بشمول حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ یہ خطاب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص نہیں تھا۔ اور نہ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ سے کوئی ایسی بات سنی تھی۔
رافضی کا یہ کہنا: ’’ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو آپ نے تکبیر سنی ‘آپ نے پوچھا : ’’ نماز کون پڑھا رہا ہے ہے ؟ تو جواب دیا گیا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’ مجھے باہر لے چلو۔‘‘
[جواب]: یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔وہ مشہور روایات جن کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے ‘ان سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر تشریف لانے سے کئی روز قبل بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لوگوں کونمازیں پڑھایا کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ کے باہر تشریف لانے کے بعد بھی آپ ہی نمازیں پڑھاتے رہے۔آپ کی بیماری کے دوران کسی ایک دوسرے نے کوئی نماز نہیں پڑھائی۔
٭ پھر ان سے یہ بھی کہا جائے گاکہ :یہ تواتر کے ساتھ معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی دن تک بیمار رہے ؛ اور کئی دن تک آپ لوگوں کونماز نہیں پڑھا سکے۔تو پھر اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کون تھا جو لوگوں کو نمازیں پڑھاتا رہا؟ کسی بھی سچے یا جھوٹے نے یہ ہر گز نہیں کہا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے نے نمازیں پڑھائی ہیں ‘ نہ ہی عمر نہ ہی علی اور نہ ہی کوئی دوسرا۔ رضی اللہ عنہم ۔ اوریہ لوگ باجماعت نماز ادا کیا کرتے تھے ‘ پس معلوم
[1] البخارِی۱؍۱۳۲؛ کتاب الاذان‘ باب أھل العلم و الفضل۔مسلِم۱؍۳۱۳؛ کتاب الصلاۃ ‘ باب استخلاف الإمام إذا عرض لہ عذر۔
[2] صحیح بخاری:ح647
[3] صحیح بخاری:ح720
[4] صحیح بخاری:ح648۔مسلم ح 98