کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 765
أنس رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت میں ہے:’’رسول اللہ کا فرمان کہ :’’ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔‘‘اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو بار تکرار۔اوراسی قصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے:’’ یقیناً تم یوسف کی ساتھی عورتیں ہو۔ابوبکر کو حکم دو کہ تم لوگوں کو نماز پڑھا ئیں ۔‘‘اس پر لوگوں کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے تمام دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لوگوں کونمازیں پڑھاتے رہے۔ اورآخری بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ابوبکر کے پیچھے پیر کے دن فجر کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا؛ اور آپ کو یہ منظر بہت اچھا لگا اور اس پر بہت خوش ہوئے ۔ [1]
اور صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ [ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور صحابی تھے] سے روایت ہے:
(( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب دو شنبہ کا دن ہوا اور لوگ نماز میں صف بستہ تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھایا اور ہم لوگوں کی طرف کھڑے ہو کر دیکھنے لگے اس وقت آپ کا چہرہ مبارک گویا مصحف کا صفحہ تھا پھر آپ بشاشت سے مسکرائے ہم لوگوں نے خوشی کی وجہ سے چاہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے میں مشغول ہوجائیں اور ابوبکر اپنے پچھلے پیروں پچھے ہٹ آئے تاکہ صف میں مل جائیں ۔وہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے آنے والے ہیں لیکن آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کرلو ؛اور آپ نے حجرہ میں داخل ہو کر پردہ ڈال دیا اسی دن آپ نے وفات پائی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) [2]
بخاری شریف کی بعض روایات میں ہے: مسلمانوں نے خوشی کے باعث یہ قصد کیا کہ اپنی نمازوں کو توڑ دیں ۔‘‘ [مگر آپ نے انہیں اشارہ فرمایا کہ تم اپنی نمازوں کو پورا کرلو اور آپ نے پردہ ڈال دیا]۔یہ نماز فجر کا واقعہ ہے۔[3]
صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : میں نے آخری نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیر کے روز اس وقت دیکھا جب آپ نے پردہ ہٹایا۔‘‘ [اس کی تخریج گزر چکی ہے ]
صحیحین میں حضرت انس سے روایت ہے کہ مرض وفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیں دن باہر نہیں نکلے۔ ایک دن نماز کی اقامت ہوئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھنے لگے اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کو پکڑا اور اس کو اٹھایا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ نظر آتے ہی ہمارے سامنے ایسا خوش کن منظر آگیا کہ اس سے زیادہ خوش کن منظر کبھی میسر نہ آیا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ابوبکر کو اشارہ کیا کہ آگے بڑھ جائیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا پھر آپ کو قدرت نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی۔‘‘[4]