کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 764
صدر بنیں گے اور تم وزیر اس لیے کہ قریش باعتبار مکان کے تمام عرب میں عمدہ برتر اور فضائل کے لحاظ سے بڑے اور بزرگ تر ہیں ۔ لہذ اتم عمر رضی اللہ عنہ یا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے بیت کرلو۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے:’’ جی نہیں ہم تو آپ سے بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار اور ہم سب میں بہتر اور ہم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں ۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان سے بیعت کرلی اور لوگوں نے آپ سے بیعت کی۔ جس پر ایک کہنے والے نے کہا تم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:’’اللہ تعالیٰ نے ہی اسے قتل کردیا ہے۔‘‘
اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے سردار؛ ان سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ لہٰذا اس علت کی بنا پر آپ کی بیعت کی جائے۔اور پھر اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ بلکہ ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے اس لیے کہ آپ ہمارے سردار اور ہم سب میں بہتر اور ہم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں ۔‘‘ تاکہ لوگوں کے سامنے واضح ہوجائے کہ مامور بہ افضل کو ولایت تفویض کرنا ہے۔اورآپ ہی ہم سب سے افضل ہیں ‘ اس لیے ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں ۔
صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: مردوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟
تو آپ نے فرمایا: ’’ ابوبکر ۔‘‘ [البخارِی۵؍۱۶۵۔مسلِم۴؍۱۸۵۶]۔
صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔‘‘
محدثین کرام اس حدیث کے بارے میں قطعی طور پر کہتے ہیں : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فرمان ہے۔بھلے کوئی ایسا انسان بھی ہو جس کا علم ان کے علم جیسا نہ ہو اور اس نے یہ حدیث نہ سنی ہو‘یہ حدیث میں سچ اور جھوٹ کی پہچان سے عاری ہو ۔ تو اس میں کوئی ایسی بات بھی نہیں ‘ اس لیے کہ علم کے لیے مخصوص لوگ ہوتے ہیں جو علمی واجبات ادا کرتے ہیں ۔اور جنگوں کے لیے کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔ او ردیوان اور حساب کے لیے محاسب اور منشی ہوتے ہیں جو ان چیزوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں ۔
یہی تین وہ لوگ ہیں جو صحیح مسلم میں ابن ابی ملیکہ کی سیّدہعائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے مقصود ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں :
’’میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا : ’’ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو خلیفہ متعین کرتے تو کس کو کرتے ؟ فرمانے لگیں : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ۔ پھر پوچھا گیا: آپ کے بعد کسے بنایا جاتا ؟ فرمایا: ’’ عمر رضی اللہ عنہ کو ۔‘‘ پھر پوچھا گیا : اس کے بعد کسے خلیفہ بناتے ؟فرمایا: ’’ حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو رضی اللہ عنہ ‘‘ اس کے بعد خاموش ہوگئیں ۔
یہاں پر مقصود یہ بتانا ہے کہ نماز میں جانشینی کئی دن تک رہی۔جیسا کہ اس روایت پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے ؛ اور یہ روایت صحاح ستہ کے مؤلفین نے حضرت ابوموسیٰ ‘ حضرت ابن عباس‘حضرت عائشہ ‘ حضرت ابن عمر ؛ حضرت
[1] صحیح بخاری:ح2178۔