کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 763
رونے کے سبب سے ان کی آواز نہ سن سکیں گے، اس لیے اگرآپ چاہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ نماز پڑھائیں ۔ آپ نے فرمایا:’’ ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ: میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ حضرت ابوبکر بہت نرم دل ہیں ؛جب آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو ان کے رونے کے سبب سے لوگ ان کی آواز سن نہ سکیں گے۔ لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیجئے کہ وہ نماز پڑھائیں ۔‘‘ چنانچہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’بیشک تم تو یوسف کی ساتھی عورتیں ہوں ۔‘‘ابوبکر کو حکم دو کہ تم لوگوں کو نماز پڑھا ئیں ۔بخاری کی روایت میں ہے: چنانچہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ٹھہر جاؤ؛یقیناً تم یوسف کی ساتھی عورتیں ہوں ۔‘‘ابوبکر کو حکم دو کہ تم لوگوں کو نماز پڑھا ئیں ۔‘‘حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ میں نے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پائی۔‘‘[1] اس حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیااور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرنے کو کہا۔ اسی تکرار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ملامت کیا‘ اوران کے تکرار کو ایسے باطل ٹھہرایا جیسے یوسف علیہ السلام کی ساتھی عورتوں نے باطل کی کوشش کی تھی۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کو نماز پڑھانے کے لیے آگے کرنا ایسا باطل ہے جوملامت کامستحق ہے۔جس طرح کہ باطل کی کوشش پر یوسف علیہ السلام کی ساتھی عورتوں کی مذمت و ملامت کی گئی ہے۔ مگر اس کے باوجود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: نماز پڑھائیے ۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگے نہیں بڑھے؛ بلکہ فرمانے لگے: آپ ہی اس کے زیادہ حق دار ہیں ۔ جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مدینہ طیبہ میں خطبہ-اس کا تذکرہ پہلے بھی گزر چکا ہے- کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں : ’’سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ: ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے ہو۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح حضرت سعد رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو روک دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :اللہ کی قسم! میں نے یہ ارادہ اس لیے کیا تھا کہ میں نے ایک ایسا کلام سوچا تھا جو میرے نزدیک بہت اچھا تھا مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ وہاں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں پہنچیں گے۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا کلام کیا جیسے بہت بڑا فصیح و بلیغ آدمی گفتگو کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ ہم لوگ امیر بنیں گے تم وزیر رہو۔ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں ؛اللہ کی قسم !ہم یہ نہ کریں گے بلکہ ایک امیر ہم میں سے بنا ایک امیر تم میں سے مقرر کیا جائیگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ نہیں بلکہ ہم امیر و
[1] یہ حدیث حضرت عائِشہ رضی اللہ عنہا سے بخاری میں مروی ہے۔۶؍۱۲۔کتاب المغازیِ، مرضِ النبِیِ صلي اللّٰه عليه وسلم ووفاتِہِ۔ مسلِم ۱؍۳۱۳۔ کتاب الصلاِۃ، باب استِخلافِ الإِمامِ إِذا عرض لہ عذر۔[ صحیح مسلم:ح 934۔