کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 762
’’ جب امام بیٹھ کرنماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کرنما ز پڑھو ۔‘‘ یا پھر دونوں باتوں کو جمع کیا جائے گا۔اور دوسری حدیث کو نماز کو بیٹھ کر شروع کرنے پر محمول کیا جائے گا۔ جب کہ اس حدیث میں یہ ہے کہ جب نماز کے دوران بیٹھنے کی ضرورت پیش آجائے۔ اس مسئلہ میں علماء کرام کے تین اقوال ہیں ۔ پہلا قول امام مالک اور محمد بن الحسن رحمہما اللہ کا ہے۔ جب دوسرا قول امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ کا ہے۔ اور تیسرا قول امام احمد بن حنبل ‘حماد بن زید ‘اوزاعی اور دوسرے علماء کرام رحمہم اللہ کا ہے ؛ جوکہ مقتدیوں کو اس وقت بیٹھ کرنماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں جب امام کسی مرض وغیرہ کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو۔اور اس مسئلہ میں بھی علماء کرام نے کلام کیاہے کہ جب متعین امام نماز پڑہانے کے لیے کسی کواپنا جانشین مقرر کرے؛ پھر وہ نماز کے دوران خود بھی حاضر ہوجائے؛ تو کیا یہ امام ان کی نماز کو پورا کرے گا ؛ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کی حالت میں اور ایک دوسرے موقع پر بھی کیا تھا؛ جس کا ذکر عنقریب آرہا ہے۔ یا پھر ایسا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب میں دو قول ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جس چیز کی خبر دی ہے؛ انہوں نے بالکل سچی خبردی ہے ۔ حالانکہ ان دونوں کے درمیان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے معمولی سی ناراضگی بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کانام بھی نہیں لیا۔ جب کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل تھے ؛ اور آپ پر کسی قسم کی کوئی تہمت نہیں رکھتے تھے۔ مگر آپ نے اس کے باوجود جو کچھ ارشاد فرمایا بالکل سچ ارشاد فرمایا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لینے کے بجائے ایک دوسرا آدمی کہہ دیا۔مگر جو کچھ آپ نے بیان کیا اس میں نہ ہی کوئی جھوٹ بولا اور نہ ہی کوئی غلطی کی۔ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے امام نہ بنانے پر) اصرار کیا ۔اور اس بار بار اصرار کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اس بات کا خیال نہ تھا کہ آپ کے بعد لوگ اس سے محبت کریں گے جو آپ کے بعد آپ کی جگہ پر کھڑا ہوگا۔ لیکن میرے دل میں یہ تھا کہ جو شخص آپ کی جگہ کھڑا ہوگا لوگ اس کو منحوس تصور کریں گے ۔ تو اسی لیے میں نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام بنانے سے معاف رکھیں تو مناسب ہوگا۔‘‘[1] صحیحین میں ہے آپ فرماتی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیماری میں سے کچھ افاقہ ہوا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کے لیے بلانے کے لیے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: میں نے عرض کی : ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے،تو لوگ ان کے
[1] یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بخارِی میں مروی ہے۔۱؍۱۳۸۔کتاب الأذانِ،باب إِنما جعِل الإِمام لِیؤتم بِہ۔ مسلِم۱؍۳۱۳۔کتاب الصلاِۃ، باب استِخلافِ الإِمامِ إِذا عرض لہ عذر۔[ مسلم:ح931۔