کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 754
لگے، تو مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کے پاس جمع ہو جاتے، ان لوگوں کو اچھا معلوم ہوتا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھتے رہتے ۔ابوبکر رضی اللہ عنہ ایسے آدمی تھے کہ بہت روتے اور جب قرآن پڑھتے تو انہیں آنسوں پر اختیار نہیں رہتا تھا۔ مشرکین قریش کے سردار گھبرائے اور ابن دغنہ کو بلا بھیجا وہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے ابن دغنہ سے کہا کہ ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے پروردگار کی عبادت کریں ، لیکن انہوں نے اس سے تجاوز کیا اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالی۔ اعلانیہ نماز اور قرآن پڑھنے لگے اور ہمیں خطرہ ہے کہ ہمارے بچے اور ہماری عورتیں گمراہ نہ ہو جائیں ۔ اس لیے ان کے پاس جا کر کہو کہ اگر وہ اپنے گھر کے اندر اپنے رب کی عبادت پر اکتفا کرتے ہیں تو کریں اور اگر اس کو اعلانیہ کرنے سے انکار کریں تو ان سے کہو کہ تمہارا ذمہ واپس کر دیں ، اس لیے کہ ہمیں پسند نہیں کہ ہم تمہاری امان کو توڑیں اور نہ ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اعلانیہ عبادت کرنے پر قائم رہنے دے سکتے ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ابن دغنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارا ذمہ ایک شرط پر لیا تھا، یا تو اسی پر اکتفا کرو یا میرا ذمہ مجھے واپس کر دو، اس لیے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ عرب اس بات کو سنیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے ذمہ میں لیا تھا، اور میرا ذمہ توڑا گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں تیرا ذمہ تجھے واپس دیتا ہوں اور اللہ کی پناہ پر راضی ہوں ۔‘‘ اس روایت میں ابن دغنہ قبائل قریش کے سرداروں کی موجودگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وہ اوصاف بیان کرتے ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اس وقت بیان کیے تھے کہ جب آپ پر وحی نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ’’ مجھے اپنی جان کا خوف محسوس ہونے لگا۔‘‘تو آپ فرمانے لگیں : ’’ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ ہر گز آپ کو پریشان نہیں کرے گا ؛ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ؛ کمزور کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔ مہمان کی میزبانی کرتے ہیں ؛ بے آسرا کا سہارا بنتے ہیں ۔ اور حق کے کاموں پر مدد کرتے ہیں ۔‘‘ یہ صفات اس نبی کی صفات ہیں جو افضل الانبیاء ہیں اور اس صدیق کی صفات ہیں جو افضل صدیقین ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور فرمایا: ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک بندہ کو دنیا اور اس چیز کے درمیان جو اللہ کے پاس ہے اختیار دیا ہے تو بندہ نے اس چیز کو پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے؛ اور فرمانے لگے: ’’ ہمارے ماں باپ آپ پرقربان جائیں ۔‘‘ بعد میں معلوم ہوا وہ اختیار دیا ہوا بندہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب میں زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ رونا نہیں ۔‘‘اورفرمایا: ’’ سب لوگوں سے زیادہ اپنی صحبت اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اگر میں کسی