کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 753
یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ قریش یا کسی دوسرے نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر کسی قسم کا کوئی عیب لگایا ہو۔نہ ہی کسی نے آپ میں کوئی نقص نکالا اورنہ ہی آپ کو حقیر سمجھا؛ جیسا کہ کمزور مسلمانوں کے ساتھ ان لوگوں کا رویہ رہتا تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے علاوہ کوئی قابل عیب بات نہیں تھی۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے متعلق قریش کے ہاں کسی قسم کی کوئی عیب یا نقص والی بات یا مذموم چیز نہیں پائی جاتی تھی۔بلکہ آپ خاندان اور گھر بار کے لحاظ سے قابل صدتکریم وتعظیم تھے۔ آپ کے مکارم اخلاق صدق و وفاء اورامانت داری مشہور تھے۔ایسے ہی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے متعلق ان کے ہاں کوئی عیب والی بات نہیں تھی۔
ابن دغنہ علاقہ کا سردار اور اپنے قبیلہ کا رئیس تھا۔ اسے قریش میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا؛ اس کی عزت و احترام کی وجہ قریش اس کو پناہ دیدیتے تھے جس کو یہ پناہ دے دیتا۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ :
’’جب قریش مکہ نے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے نکلے۔جب برک غماد پہنچے تو ان سے علاقہ کے سردار ابن دغنہ کی ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا: ابوبکر رضی اللہ عنہ !کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ:’’ مجھ کو میری قوم نے نکال دیا ہے؛اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زمین کی سیر کروں اور اپنے پروردگار کی عبادت کروں ۔‘‘
ابن دغنہ نے کہا کہ:’’ تم جیسا آدمی نہ تو نکل سکتا ہے اور نہ نکلا جا سکتا ہے؛ اس لیے کہ تم فقراء کے لیے کماتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو اور عاجز و مجبور کا بوجھ اٹھاتے ، مہمان کی ضیافت کرتے ہو اور حق(پر قائم رہنے)کی وجہ سے آنے والی مصیبت پر مدد کرتے ہو؛میں تمہیں پناہ دیتا ہوں تم لوٹ چلو؛اور اپنے ملک میں اپنے رب کی عبادت کرو۔‘‘
چنانچہ ابن دغنہ روانہ ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر واپس ہوا ؛اور کفار قریش کے سرداروں میں گھوما اور ان سے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا آدمی نہ تو نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے جو تنگدستوں کے لیے کماتا ہے صلہ رحمی کرتا ہے، عاجزوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ راہ حق میں پیش آنے والی مصیبت میں مدد کرتا ہے۔ چنانچہ قریش نے ابن دغنہ کی پناہ منظور کرلی ۔اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے کر ابن دغنہ سے کہا : ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہہ دو کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کریں ، نماز پڑھیں ، لیکن ہمیں تکلیف نہ دیں اور نہ اس کا اعلان کریں ، اس لیے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہمارے بچے اور عورتیں فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔‘‘
ابن دغنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ کہہ دیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ تک اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے لگے اور نہ تو نماز اعلانیہ پڑھتے اور نہ قرأت اعلانیہ کرتے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں کچھ خیال پیدا ہوا، تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا لی اور باہر نکل کر وہاں نماز اور قرآن پڑھنے
[1] حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مدینہ میں ایک درزی تھا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی۔میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا گیا ۔ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پلیٹ سے کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے کھارہے تھے۔تو اس وقت سے مجھے کدو سے محبت ہو گئی۔[بخاری‘ کتاب الاطعمہ ‘باب من تتبع حوالی القصعہ ۔وکتاب البیوع ‘ باب ذکر الخیاط۔نیز دیکھیں صحیح مسلم ‘ ۳؍۱۶۱۵۔]