کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 752
میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔یہ تمام جاہلیت کے افعال ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ روافض پر جاہلیت غالب ہوتی ہے۔ اور خودکئی ایک ان وجوہات کی بناپرکفار سے مشابہت رکھتے ہیں ؛جن میں انہوں نے اہل ایمان و اسلام کی مخالفت کی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورپیشہ سلائی؟: [اعتراض]:رافضی کا یہ کہنا ہے کہ: ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد درزی کا کام کیا کرتے تھے۔جب آپ مسلمانوں کے ولی الامر بن گئے تو لوگوں نے آپ کو درزی کا کام کرنے سے روک دیا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]: یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ درزی تھے۔اس دعوی کا جھوٹ ہونا ہر معرفت رکھنے والے انسان پر عیان ہے۔اور اگرحقیقت میں ایسا ہوتا بھی تو اس میں کوئی عیب والی بات نہیں تھی۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تاجر تھے درزی نہ تھے۔آپ کبھی اپنال مال تجارت لیکر خود سفر کرتے ‘ اور کبھی خود نہ بھی جاتے۔آپ نے عہد اسلام میں تجارت کی غرض سے شام کا سفر کیا۔تجارت قریش کے ہاں افضل ترین ذریعہ آمدن تھا۔ان کے مالداروں میں سے بہترین لوگ تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ اور عرب انہیں تاجروں کی حیثیت سے ہی جانتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اس وقت بھی تجارتی مشاغل جاری رکھنا چاہتے تھے ‘ مگرمسلمانوں نے اس سے روک دیا؛ اور عرض گزار ہوئے کہ : یہ کام آپ کومسلمانوں کی مصلحت کے کاموں سے روک دے گا۔‘‘ درزی کایہ پیشہ قریش میں بڑاکم یاب تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش عام طور سے تہ بند باندھتے اور اوپر چادر اوڑھ لیا کرتے تھے۔[ اس لیے کپڑے سینے کی ضرورت ہی لاحق نہیں ہوا کرتی تھی]۔ مدینہ طیبہ میں ایک درزی ہوا کرتا تھا۔اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھرپر بھی بلایا تھا۔[1] جب کہ مہاجرین میں سے کسی ایک کے متعلق ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہوسکی کہ وہ درزی کاکام کرتا ہو۔حالانکہ درزی کا پیشہ بڑا ہی اچھا اور باعزت پیشہ ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی راہ میں خرچ کرناتواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ اسے ہر خاص و عام جانتا ہے۔اسلام سے قبل آپ بڑے مال دار تھے۔ قریش آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے آپ کی تعظیم کرتے اور آپ سے محبت کرتے تھے۔ آپ کو عربوں کے نسب اور ان کی لڑائیوں کے بارے میں بہت علم حاصل تھا۔لوگ آپ کے علم و احسان اور تجارتی مقاصد کی وجہ سے آپ کے پاس آتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ مکہ سے نکلے تو ابن دغنہ نے کہا: ’’آپ جیسا آدمی نہ نکل سکتا اور نہ نکالا جاسکتا ہے ۔‘‘