کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 749
بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ علم و معرفت رکھنے والے انسان تھے۔مسلمان علماء کرام رحمہم اللہ کی ایک جماعت تھی جو لوگوں کو آداب سیکھایا کرتے تھے۔ان میں : ابو صالح ‘جو کلبی کے ساتھی تھے ؛ بچوں کوتعلیم دیا کرتے تھے ۔ ابو عبدالرحمن السلمی ان کا شمار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خواص میں سے ہوتا ہے۔ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ضحاک بن مزاحم اور عبداللہ بن الحارث بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ مگر اس پر کوئی اجرت نہیں لیتے تھے۔‘‘ ان ہی لوگوں میں سے ایک حضرت قیس بن سعد بھی تھے۔اور عطاء بن ابی رباح؛ عبد الکریم ابو امیہ ‘ حسین المعلم ابوذکوان ‘ قاسم بن عمیر ہمدانی ؛ حبیب المعلم مولی معقل بن یسار بھی تھے۔نیز حضرت علقمہ بن ابی علقمہ ؛ ان سے حضرت مالک بن انس بھی روایت کرتے ہیں ‘ آپ کا ایک مکتب تھا جہاں پر لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ ان میں سے ابو عبید القاسم بن سلام بھی ہیں ۔جن کی فضلیت و امامت پر اجماع ہے۔ توپھر جب یہ بات ہی خود ساختہ جھوٹ ہے تو ہم اس کے متعلق کیا کہہ سکتے ہیں ۔ [ابوبکر رضی اللہ عنہ اگرپیشہ ور معلم ہوتے تو قریش کے بہت سے لوگ لکھے پڑھے ہوتے۔ حالانکہ لکھنے والوں کی قریش میں بڑی قلت تھی]۔ بلکہ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام سے قبل نچلے درجہ کے لوگوں میں سے بھی ہوتے تو پھر بھی یہ بات آپ کی شان میں قدح کا موجب نہیں ہوسکتی تھی۔اس لیے کہ حضرت سعد‘عبداللہ بن مسعود ‘ صہیب؛بلال ‘ رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ دیگر کمزور لوگ بھی تھے جن کے متعلق قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کردیا ۔ فرمان ِالٰہی ہے: ﴿وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْئٍ﴾....آگے تک....﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ﴾ [الانعام ۵۲۔۵۳] ’’اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں ، خاص اس کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں ۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں ....آگے تک ....کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْتُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰیہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا﴾ [الکہف ۲۸] ’’ تو ان لوگوں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے اور اس شخص کا کہنا نہ مان
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک(ح:۴۱۴۱) صحیح مسلم، کتاب التوبۃ ، باب فی حدیث الافک(ح:۲۷۷۰)۔ [2] مستدرک حاکم(۳؍۲۸۴)، سیرۃ ابن ہشام(ص:۱۴۷) [3] سیرۃ ابن ہشام(ص:۲۲۵)ایک قول کے مطابق آپ کے پاس اس وقت چھ ہزار درہم تھے۔ آپ اس مال سے تجارت کیا کرتے تھے۔