کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 748
مدد کرتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دور کی قرابت کی وجہ سے حضرت مِسْطَح رضی اللہ عنہ کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔مسطح بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے واقعہ افک میں کلام کیا تھا۔ توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھالی کہ وہ آئندہ ان کی مالی امداد نہ کریں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ﴿وَلَا یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوا اُوْلِی الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِیْنَ[وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ] وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ (النور:۲۲) ’’ تم میں سے فارغ البال اشخاص اس بات کی قسم نہ کھالیں کہ وہ اپنے اقارب اور مساکین [ومہاجرین پر خرچ نہیں کریں گے۔ چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں ، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اﷲتعالیٰ تمھیں بخش دے]اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یہ سن کرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اﷲ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ میری مغفرت فرمائے، چنانچہ پھر مسطح کی مالی امداد شروع کردی۔‘‘[1] سات اشخاص جو غلام تھے، ا سلام کے جرم میں ان کو پیٹا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی تو[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس] جتنا مال تھا سب ساتھ لے لیا۔[3] حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ آئے اور پوچھنے لگے : ابوبکرخود تو چلا گیا‘ کیا اس نے اپنا مال تمہارے لیے چھوڑا ہے یا اسے بھی ساتھ لے گیا؟حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کہا: نہیں آپ مال چھوڑ گئے ہیں ۔اور میں نے ایک کونے میں کوئی چیز رکھ کر ان سے کہا: ان کا مال یہ پڑا ہوا ہے۔‘‘تاکہ آپ کا دل مطمئن ہوجائے کہ آپ اپنے عیال کے لیے کچھ چھوڑ کر گئے ہیں ۔ ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کیا۔یہ تمام باتیں دلالت کرتی ہیں کہ آپ مالدار انسان تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورپیشہء معلمی ؟: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ:’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ عہد جاہلیت میں بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک پیشہ ور معلم تھے۔‘‘ [صاف جھوٹ ہے] اگر فی الواقع ایسا ہوتا بھی تواس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔