کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 747
٭ اوریہ کہ ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ عہد جاہلیت میں بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک پیشہ ور معلم تھے۔ اور اسلام لانے کے بعد درزی کا کام کیا کرتے تھے۔جب آپ مسلمانوں کے ولی الامر بن گئے تو لوگوں نے آپ کو درزی کا کام کرنے سے روک دیا۔ تو آپ کہنے لگے: مجھے تو اپنی روزی کے لیے ضرورت ہے ۔تو اس پر آپ کے لیے بیت المال سے یومیہ تین دراہم وظیفہ مقرر کردیا۔[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:کسی انسان کا قطعی و متواتر روایات جو کہ خاص و عام کے درمیان مشہور ہوں ؛ اور ان سے کتابیں ‘جیسے : کتب صحاح ‘مسانید؛ تفاسیر؛ فقہ اور فضائل و سیرت کی کتب بھری پڑی ہوں ؛کا انکارکرنا ایک عظیم مصیبت ہے۔اور پھر ایسی روایات کا دعوی کیا جائے جن کا علم محض رافضی دعوی کی بنیاد پر حاصل نہیں ہو سکتا۔اورنہ ہی اسے کسی معروف سند سے نقل کیا گیا ہے ۔ اورنہ ہی اسے کسی معروف اور ثقہ کتاب کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ اورنہ ہی اسے یہ سمجھ آرہی ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ یہ انسان مخلوق میں سے کسی جاہل ترین انسان سے بھی مناظرہ کرے تو اس کے لیے یہ کہنا بہت آسانی سے ممکن ہوگا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ [ہم شیعہ مصنف سے پوچھتے ہیں کہ] آخر کس ثقہ یا ضعیف راوی نے کہا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مفلس آدمی تھے؟
پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اپنا مال خرچ کرنے کے قصے تواتر کے صحیح احادیث میں کئی کئی اسناد سے منقول ہیں ۔حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مجھے کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنافائدہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے۔‘‘[سبق تخریجہ]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
’’ ہم پر اپنی جان ومال سے لوگوں میں سب سے زیادہ احسان کرنے والے حضرت ابوبکر ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ اسی مال سے آپ نے حضرت بلال؛ عامر بن فہیرہ اور دیگر سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خرید کر آزاد کیا ۔
رافضی کا یہ قول کہ : آپ کا باپ ہر دن چند ٹکڑوں کے عوض عبداللہ بن جدعان کے دستر خوان پر منادی کیا کرتا تھا‘‘
[جواب ]:رافضی نے اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی جس سے اس کی صحت کی معرفت حاصل ہوسکے۔اور اگر ایسا ثابت بھی ہوجائے تو اس میں کوئی ضرر والی بات نہیں ۔اس لیے کہ ایسا کیا جانا جاہلیت میں تھا اسلام میں نہیں ۔ اس لیے کہ ابن جدعان کا انتقال اسلام سے پہلے ہوا ہے۔جب کہ عہد اسلام میں ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کے پاس اتنا مال تھا جو ان کی ضرورت پوری کرتا تھا۔ یہ بات ہر گز معلوم نہیں ہوسکی کہ حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ لوگوں کے دست نگر رہتے ہوں ۔ اور حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے لمبی زندگی پائی ؛ یہاں تک کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو آپ کو ان کی میراث میں سے چھٹا حصہ ملا۔جو کہ آپ نے اولاد ابوبکر رضی اللہ عنہ کوواپس کردیا ‘ اس لیے کہ آپ کے پاس بقدر کفایت مال ہونے کی وجہ سے اس کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر انہیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ضرورآپ کی
[1] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ عزم و ثبات و قوت ایمان و ایقان کا زندہ پیکر تھے، نیز یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اصحاب بدر میں سب سے افضل تھے، حالانکہ دونوں نے لڑائی میں عملی حصہ نہیں لیا تھا۔ یہ ضروری نہیں کہ لڑائی میں عملی حصہ لینے والا نہ لڑنے والے سے افضل ہو۔[آغا دلدار]