کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 746
سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ ﴾....آگے تک ....﴿وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْن﴾۔[التوبۃ ۱۹۔۲۰]
’’ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر بنا دیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے؟اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں ہوسکتے ....اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں ۔‘‘
ان اہل جہادکا مقام و مرتبہ اللہ کے ہاں اہل حج و صدقہ و خیرات سے بڑھ کر تھا۔ اور ان میں سب سے اکمل و کامل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔
جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جہاد ہاتھ کا جہاد تھا؛ اس میں وہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ شریک تھے جو بدر کے دن جہاد میں مصروف تھے۔ اور یہ بات معلوم نہیں ہوسکی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بدر یا احد کے موقع پر یا دیگر کسی موقع پر باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت زیادہ لڑائی لڑی ہو۔
پس حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت ان کے ساتھ خاص ہے ‘ اس میں کوئی دوسرا آپ کا سہیم و شریک نہیں ؛ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل آپ کے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین مشترک ہیں ۔
نوویں وجہ:....بلاشبہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس سائبان سے باہر نکلے اور مٹھی بھر کر مٹی پھینکی جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ [الأنفال ۱۷]
’’اور جب آپ نے مٹھی پھینکی تھی تو وہ آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے قتال کیا تھا ؛ یہاں تک کہ آپ کے بیٹے عبدالرحمن نے کہا: میں نے آپ کو بدر کے دن دیکھا تھا؛مگر میں آپ سے منہ موڑ کر چلاگیا۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’لیکن اگر میں تمہیں دیکھ لیتا تو ضرور قتل کردیتا ۔‘‘ [1]
فصل:....[احوال ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق جھوٹا دعوی]
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:یہ جھوٹ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خرچ کیا کرتے تھے، اس لیے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ مال دار نہ تھے۔ آپ کا باپ انتہائی درجہ کا فقیر انسان تھا جو کہ ہر دن چند ٹکڑوں کے عوض عبداللہ بن جدعان کے دستر خوان پر منادی کیا کرتا تھا۔ اگر ابوبکر واقعی مال دار ہوتا تووہ اپنے باپ کی ضرورت پوری کرتا۔