کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 745
تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اموال ان تمام لوگوں کے مابین تقسیم کیے گئے ۔
ساتویں وجہ:....رافضی مصنف کا یہ دعوی کہ : ’’س لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ انس نے آپ کو دیگر ہر مونس و غمخوارسے بے نیاز کردیاتھا۔‘‘
اس کا جواب یہ ہے : کہنے والے کا یہ کہنا: ’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سائبان میں آپ کے مؤنس و غمخوار تھے‘‘یہ قرآن و حدیث کا کلام نہیں ہے۔اورجس نے یہ کہا ہے وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہاہے۔اس سے مقصود یہ ہے کہ آپ اس لحاظ سے مؤنس نہیں تھے کہ آپ کو کوئی وحشت نہ ہو۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ قتال میں آپ کے معاون تھے۔ جیساکہ آپ سے فروتر مرتبہ کے لوگ بھی جہاد میں آپ کی مدد کررہے تھے۔دیکھیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ہُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الأنفال ۶۲]۔
’’ اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان تمام اہل ایمان میں سے افضل تھے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ نیزاللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [النساء۸۴]
’’اللہ کی راہ میں جہاد کیجئے۔ آپ پر صرف اپنی ہی ذمہ داری ہے اور مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلائیے۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جہاد اور اپنی مدد کی ترغیب تمام امکانیات کی انتہاء تک پہنچی ہوئی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کو جہاد کی ترغیب دیں تاکہ ان کے ساتھ مل کردشمن سے لڑنا ممکن ہو۔ اور ان کی دعاء ‘ رائے ‘ افعال سے اوردیگر جس طرح بھی ممکن ہوسکے دشمن کے خلاف ان سے مدد حاصل کی جائے۔
آٹھویں وجہ:....یہ بات کہی جائے گی کہ: تمام اہل عقل کے ہاں یہ بات معلوم ہے کہ جنگ میں اصل مطلوب سربراہ ہوتا ہے جو کہ دشمن کو قتل کرنا اوران سے لڑنا چاہتا ہے۔جب یہ قائدسائبان میں ؛یا قبہ میں یہ کسی بھی پناہ کی جگہ پڑاؤ ڈالے اوراپنے ساتھ تمام ساتھیوں میں سے صرف فرد واحد کوہی اختیار کرے اور باقی تمام لوگ اس سائباں سے باہر ہوں ۔تو یہ انسان تمام لوگوں میں سے خاص الخاص ہی ہوسکتا ہے۔اور اس کی دوستی سب سے گہری دوستی اور اس سے حاصل ہونے والا فائدہ بہت بڑا ہوسکتا۔ جہاد میں یہ نفع اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کے ساتھ قوت قلب اور ثابت قدمی بھی ہو۔ کمزوری اور پسپائی کے ساتھ یہ ممکن نہیں ۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان تمام لوگوں میں سب سے بڑے مؤمن و مجاہد تھے۔ تمام مخلوق میں افضل ترین لوگ اہل ایمان اور اہل جہاد ہوتے ہیں ۔پس جو اس میدان میں افضل ہو ‘تو اس کی فضیلت مطلق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْجَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیْ
[1] صحیح مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر (حدیث: ۱۷۶۳)۔