کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 744
اے اللہ!اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر اپنے رب سے ہاتھ دراز کیے قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک آپ کے شانہ سے گر پڑی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھایا اور اسے آپ کے کندھے پر ڈالا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے آپ سے لپٹ گئے اور عرض کیا:’’ اے اللہ کے نبی آپ کی اپنے رب سے دعا کافی ہو چکی عنقریب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرے گا۔‘‘تب اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی :
﴿اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ﴾ [الأنفال ۹]
’’جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی ۔‘‘[1] [اور پوری حدیث بیان کی]
پانچویں وجہ:....یہ کہا جائے گا: جو انسان بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سیرت سے آگاہ ہے ‘وہ جانتا ہے کہ آپ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے مضبوط دل کے مالک تھے۔ان میں سے کوئی ایک بھی آپ کے قریب بھی نہیں پہنچتا تھا۔ کیونکہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اس وقت سے لیکردم وفات تک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ثابت قدم بہادر مجاہد اور پیش پیش رہے۔کبھی بھی آپ کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ دشمن کے مقابلہ میں آپ نے کوئی بزدلی یا کمزوری دیکھائی ہو ۔ بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل کمزور ہوگئے تھے۔ان حالات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے جو لوگوں کو ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمارہے تھے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا۔یہ حقیقت ہے کہ ہم لومڑی کی طرح بزدل ہوگئے تھے آپ کی حوصلہ افزائی نے ہمیں شیر بنا دیا۔‘‘
یہ بھی روایت کیا گیاہے کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا تھا:’’ اے نائب رسول اللہ! لوگوں پر رحم کیجیے۔‘‘
تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی داڑھی پکڑ لی اور کہا: اے ابن خطاب ! جاہلیت میں تو بڑے سخت اور اسلام میں یہ خواری دیکھارہے ہو۔ اور میں ’’ کس بات پر رحم کروں آیا کسی جھوٹی بات پر یا کسی خود ساختہ شعر پر۔‘‘
چھٹی وجہ:....رافضی کا یہ کہنا کہ: ’’ کون سا انسان افضل ہے جو جہاد سے بیٹھارہے یا پھر وہ شخص جو اپنے مال و جان سے جہادفے سبیل اللہ کرے۔‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے : بلکہ اس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور رہنا افضل ترین جہاد ہے۔اس لیے کہ دشمن کا اصل ہدف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔لشکر کا ایک تہائی حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد آپ کی حفاظت پر مامور تھا اور ایک تہائی حصہ بھاگنے والے دشمنان کا پیچھا کررہا تھا۔ اور ایک تہائی حصہ کے لوگ مال غنیمت جمع کررہے
[1] امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ اگر رافضی مصنف یہ کہتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بزدل تھے اور لڑائیوں سے بھاگ جایا کرتے تھے۔ نیز وہ مفلس و قلاش تھے؛ درزی تھے، ان کی پشت پناہی کے لیے کوئی قبیلہ نہ تھا‘ان کا خاندان بنی عبد مناف اوربنو مخزوم کی طرح معزز نہ تھا‘اور ان کے خدم و حشم نہ تھے۔ ‘‘ہم پوچھتے ہیں کہ سابقین اوّلین نے کس کے سامنے گردن تسلیم خم کی اور اسے خلیفہ رسول کہہ کر پکارا؟ آخر نص شرعی کے سوا کون سی چیز ان کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کر سکتی تھی۔اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ سب امت میں افضل نہ ہوتے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ یوں نہ فرماتے:’’اﷲ کی قسم! جس قوم میں ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا شخص موجود ہو، مجھے اس کا امیر مقرر کرنے سے بہتر ہے کہ مجھے تہہ تیغ کردیا جائے۔ [صحیح بخاری]