کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 743
نہیں کہا کہ آپ پسپا ہونے والوں کے ساتھ پسپا ہوگئے تھے۔بلکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں تھے جو غزوۂ حنین میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے۔سیرت نگارحضرات نے ایسے ہی بیان کیاہے۔لیکن کذابین نے یہ جھوٹ گھڑلیا ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے غزوہ حنین کے موقع پر پرچم اسلام لیا تھا؛ مگر پھر ان کے ہاتھوں پر فتح نہ ہوسکی؛ اس لیے کہ حضرات واپس آگئے۔اور بعض نے اس میں اس جھوٹ کا بھی اضافہ کردیا ہے کہ اس موقع پر یہ دونوں حضرات بھی پسپا ہونے والوں کے ساتھ پسپا ہوگئے تھے۔یہ تمام باتیں من گھڑت جھوٹ ہیں ۔
اس سے قبل کہ انسان اس دعوی کا جھوٹ ہونا جان لے‘ یہ جاننا چاہیے کہ جس نے ان حضرات کے خلاف اس قسم کا دعوی کیا ہے وہ اس کا مدعی ہے‘اسے چاہیے صحیح اور سچی روایات کی روشنی میں اپنادعوی ثابت کرے۔مگر رافضی اس کی راہ ہر گز نہیں پائے گا۔کوئی ایک بھی ایسی صحیح اورسچی روایت ثابت کردیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی ایک غزوہ میں بھی بھاگے تھے؛ کئی ایک غزوات میں بھاگنا تو بہت دور کی بات ہے۔
تیسری وجہ: ....اگرواقعی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بزدل ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے سائبان میں باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر آپ کوخصوصی شرف رفاقت سے مشرف نہ کرتے۔بلکہ ایسے لوگوں کومعرکوں میں لیکر جانا ہی جائز نہیں ۔ اس لیے کہ امام کے لیے جائز نہیں کہ وہ معرکہ میں ایسے لوگوں کوساتھ لیکر جائے جو رسوائی کا سبب بننے والے یا پھر جھوٹی خبریں اڑانے والے ہوں ۔ چہ جائے کہ انہیں باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پر تقدیم بخشی جائے اور اپنے ساتھ سائبان میں بطور خاص رکھا جائے۔[1]
چوتھی وجہ:....بخاری ومسلم میں ثابت شدہ صحیح روایات اس بہتان تراش رافضی کے کذب ودجل کوواضح کرتی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان ویقین اورثبات پر روشنی ڈالتی ہیں ۔صحیحین میں حضرت ابن عباس، حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دن مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تین سو سترہ تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ فرما کر اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اپنے رب سے پکار پکار کر دعا مانگنا شروع کر دی:
’’ اے اللہ!میرے لیے اپنے کیے ہوئے وعدہ کو پورا فرمایا۔ اے اللہ!اپنے وعدہ کے مطابق عطا فرما۔