کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 742
بیٹا حضرت محمد بن حنفیہ پیداہوا۔
جہاد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فرار؟:
[اعتراض]:رافضی مصنف نے کہا ہے:’’ بدر کے موقع پر جھونپڑے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے میں کوئی فضیلت نہیں ۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ انس نے آپ کو دیگر ہر مونس و غمخوار سے بے نیاز کردیاتھا۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اگر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جنگ لڑنے کا حکم دیں گے تو اس سے فساد پیدا ہوگا ؛ اس لیے کہ آپ اس سے پہلے کئی بار غزوات میں بھاگ چکے تھے۔پس یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا انسان افضل ہے جو جہاد سے بیٹھارہے یا پھر وہ شخص جو اپنے مال و جان سے جہاد فے سبیل اللہ کرے۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]: اس رافضی کا بیان کھلا ہوا جھوٹ اور کئی وجوہات کی بنا پر محض باطل ہے :
غزوۂ بدر سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فرار کا واقعہ؟:
شیعہ مصنف کا یہ بیان :’’کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ متعدد مرتبہ غزوات سے بھاگ گئے تھے۔‘‘
ہم کہتے ہیں :[ رافضی کا یہ دعوی محض کذب، دروغ اور فریب دہی پر مبنی ہے] ۔اور ایسی بات وہی انسان کہہ سکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات و احوال سے سب سے بڑا جاہل ہو۔ روافض کی جہالت کوئی اچھوتی چیز نہیں ۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے سب سے بڑے جاہل ؛جھوٹ کی تصدیق کرنے والے اور حق بات کی تکذیب کرنے والے روافض ہی تو ہوتے ہیں ۔
غزوۂ بدراسلام کا سب سے پہلا معرکہ ہے؛اس سے پہلے کفار کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کوئی لڑائی نہیں لڑی۔جن غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کیا ؛ ان کی تعداد نو ہے : بدر‘ أحد‘خندق؛ بنی مصطلق؛ غزوہ ذی قرد ؛ خیبر ‘ فتح مکہ ؛حنین اور طائف۔جب کہ وہ غزوات جن میں قتال کی نوبت نہیں آئی ان کی تعداد پندرہ بنتی ہے۔جب کہ سرایامیں سے بعض ایسے تھے جن میں قتال ہوا اور بعض میں کوئی قتال نہیں ہوا۔
بہر حال جو بھی ہو؛ غزوہ بدر پہلا معرکہ تھا جس میں قتال کی نوبت پیش آئی؛اس پر تمام لوگوں کااتفاق ہے۔یہ ایسا عام علمی پہلو ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے باخبر ہر انسان : محدث و مفسر ‘ سیرت نگار وفقہی ؛ مغازی نگار و مؤرخ ہر ایک جانتا ہے کہ غزوہ بدر وہ پھلا معرکہ تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کیا۔ اس سے پہلے قتال کی نوبت پیش نہیں آئی۔اس سے پہلے کسی غزوہ یا سریہ میں قتال کی نوبت نہیں آئی؛ سوائے ابن حضرمی کے قصہ کے۔اس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ شریک نہیں تھے۔تو پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ : آپ اس سے پہلے کئی بار غزوات سے بھاگ چکے تھے؟
دوسری وجہ:....یہ حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی لڑائی سے نہیں بھاگے تھے۔ غزوۂ احد میں بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ان لوگوں میں تھے جو ثابت قدم رہے تھے۔ البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے جولغزش ہوئی تھی؛ اسے اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔[ یہ بات بدلیل نص بیان کی جا چکی ہے]۔حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں کسی ایک نے بھی