کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 741
اب تم لوگ دو گمراہیوں کے درمیان متردد ہو۔ان میں سے جس کو چاہو تم اختیار کرلو۔ کیا ہم اس مسئلہ سے بھی نکل گئے ؟ کہنے لگے :اللہ گواہ ! ہاں درست ہے۔ پھر فرمایا: ’’تمہارا یہ کہنا کہ اپنے نام سے امیر المؤمنین کا لقب مٹا دیا ۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر قریش کو دعوت دی کے ان کے مابین صلح نامہ لکھا جائے۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ لکھو: یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ۔‘‘ تو قریش کہنے لگے: اللہ کی قسم ! اگر ہم یہ جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ جانے سے نہ روکتے اورنہ ہی آپ کیساتھ جنگ کرتے۔ لیکن یوں لکھو: محمد بن عبداللہ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں ‘ اگرچہ تم مجھے جھٹلاتے ہی رہو۔ اے علی ! لکھو: محمد بن عبداللہ۔‘‘ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔‘‘کیا ہم اس مسئلہ سے بھی نکل گئے؟ کہنے لگے: اللہ قسم ! ضرور۔پس ان میں سے بیس ہزار لوگ واپس آگئے اور چار ہزار اپنی ضد پر قائم رہے جو کہ قتل کردیے گئے ۔‘‘ رافضی مصنف اور اس جیسے دوسرے شیعہ کا ان لوگوں کوکافر کہنا؛اور ان حضرات کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت کی طرف رجوع کرنے کو اسلام قراردینا؛ اس لیے کہ ان کے گمان کے مطابق رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے : ’’ اے علی ! تیرے ساتھ جنگ میرے ساتھ جنگ ہے ۔‘‘ اس کے جواب میں کہا جائے گا: ’’ بڑی ہی عجیب بات ہے۔ اوران پر بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ رافضی مصنف اور جیسے دیگر خسیس لوگ اس عظیم اصول کو ثابت کرسکیں ۔اس لیے کہ رافضی کی پیش کردہ حدیث ایک من گھڑت روایت ہے جس کا حدیث کی معتمد کتابوں میں کہیں نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔نہ ہی صحاح میں ‘نہ ہی سنن میں اور نہ ہی مسانید و فوائد میں ۔اورنہ ہی ان کے علاوہ کسی دوسری ایسی کتاب میں جن سے محدثین روایات نقل کرتے ہیں ۔اور ان کے مابین وہ کتب رائج ہیں ۔ اور محدثین کے ہاں یہ روایت نہ ہی صحیح نہ ہی حسن اورنہ ہی ضعیف ۔بلکہ یہ ایک گروی ہوئی روایت ہے [جسے رافضی ٹولہ نے گھڑلیا ہے]۔ اور اس کا من گھڑت ہونا صاف واضح ہے۔ اس لیے کہ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول اس مشہور و متواتر سنت کے خلاف ہے جس میں آپ نے دونوں گروہوں کومسلمان قراردیا تھا۔ اور یہ کہ اس فتنہ کے دور میں جنگوں میں شرکت کرنے سے دستبرداری اختیار کرنے کو آپ نے بہتر بتایا تھا۔ اور اس صورتحال میں دوگروہوں کے مابین صلح کروانے والے کی تعریف کی تھی۔اگر ان دو گروہوں میں سے کوئی ایک دین اسلام سے مرتد ہوتا تو یقیناً وہ گروہ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہوتے جو کہ کسی قدر اپنے دین پر باقی ہیں ۔اوروہ قتل کیے جانے کے سب سے بڑے مستحق ہوتے۔جیساکہ مسیلمہ کذاب کے مرتد ساتھی قتل کیے جانے کے مستحق تھے ؛ جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر سبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قتال کیا‘اور ان کے ساتھ جنگیں لڑنے پر ان کا اتفاق تھا۔بلکہ انہوں نے ان لوگوں کے بچے اور خواتین قیدی بنائے۔ان ہی میں سے ایک لونڈی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی جس سے آپ کا مشہور نیکو کار