کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 738
چوتھی وجہ:....یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ لڑنے کو شامل نہیں ۔اس کہ آیت میں فرمایا گیا ہے : ﴿تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ﴾’’ تم ان سے جنگ کرتے ہویا پھر صلح کرتے ہو ۔‘‘ یہاں پر دو وصف بیان کیے گئے ہیں جن میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ جن لوگوں کی طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتال کے لیے بلایا تھا؛ ان میں سے خلقت کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جنہوں نے آپ سے کوئی جنگ نہیں کی۔بلکہ یہ لوگ جنگ سے دستبردار رہے۔ نہ ہی انہوں نے آپ سے جنگ کی اور نہ ہی آپ کے ساتھ مل کر جنگ کی۔یہ لوگ ایک تیسرا گروہ تھے۔جنہوں نے نہ ہی آپ کے ساتھ جنگ کی اورنہ ہی آپ سے سے مل کر۔ اورنہ ہی آپ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہوئے ۔ یہ سبھی لوگ مسلمان تھے۔ ان کے مسلمان ہونے پر کتاب و سنت اوراجماع صحابہ بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ اورباقی لوگوں کے ؛ دلائل موجود ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَo﴾ (الحجرات:۹) ’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب)اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا وصف لڑائی و جنگ وجدال کے باوجود مؤمن ہونا بیان کیا ہے۔ اور یہ بھی خبر دی ہے کہ یہ سبھی آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔یہ بھائی چارہ اہل ایمان کے مابین ہی ہوسکتا ہے؛مؤمن و کافر کے مابین نہیں ۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن کے متعلق فرمایا: ’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرا دے گا۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر لشکر معاویہ رضی اللہ عنہ اور لشکر علی رضی اللہ عنہ کے مابین صلح کروائی۔پس یہ حدیث ان سبھی لوگوں کے اہل ایمان ہونے کی دلیل ہے۔ اور اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے مابین صلح و صفائی کو پسند فرماتے ہیں ۔اور یہ کام کرنے والوں کی ثنائے خیر کرتے ہیں ۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کا م حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا ؛ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کا کام تھا۔ مزیدبرآں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل ِ متواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ انہوں نے دونوں گروہوں کے متعلق اسلامی احکام کے مطابق فیصلہ کیا تھا۔یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی بنے تھے؛اوران کے بچوں کو قیدی بھی نہیں بنایا گیا تھا؛اور نہ ہی ان کے وہ اموال مال ِغنیمت بنائے گئے جو وہ معرکہ میں لیکر نہیں آئے تھے۔ اوریہ آپس میں ایک دوسرے کی
[1] صحیح بخاری: ح:832 [2] بقیہ حدیث اس طرح سے ہے:[پھراس کے بعد] حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ تم معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام سے مقابلہ کے لیے جاتے ہوئے ان کو چھوڑ جاتے ہو کہ یہ تمہارے پیچھے تمہاری اولادوں اور تمہارے اموال کو نقصان پہنچائیں ۔ اللہ کی قسم میں امید کرتا ہوں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حرام خون بہایا اور ان کے مویشی وغیرہ لوٹ لیے تم اور لوگوں کو چھوڑو اور ان کی طرف اللہ کے نام پر چلو۔سلمہ بن کہیل کہتے ہیں پھر مجھے زید بن و ہب نے ایک منزل کے متعلق بیان کیا۔ یہاں تک کہ ہم ایک پل سے گزر ہے اور جب ہمارا خوارج سے مقابلہ ہو تو عبداللہ بن و ہب راسبی انکا سردار تھا۔ اس نے اپنے لشکر سے کہا تیر پھینک دو اور اپنی تلواریں میانوں سے کھینچ لو میں خوف کرتا ہوں کہ تمہارے ساتھ وہی معاملہ نہ ہو جو تمھارے ساتھ حرورا کے دن ہوا تھا تو وہ لوٹے اور انہوں نے نیزوں کو دور پھینک دیا اور تلواروں کو میان سے نکالا۔ لوگوں نے ان سے نیزوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور یہ ایک دوسرے پر قتل کیے گئے ہم میں صرف دو آدمی کام آئے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ان میں سے ناقص ہاتھ والے کو تلاش کرو۔ تلاش کرنے پر نہ ملا تو علی رضی اللہ عنہ خود کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان لوگوں پر آئے جو قتل ہو چکے تھے آپ نے فرمایا ان کو ہٹایا؛ پھر اس کو زمین کے ساتھ ملا ہوا پایا آپ نے اللہ کبر کہہ کر فرمایا اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے پہنچایا تو پھر عبیدہ سلمانی نے کھڑے ہو کر کہا اے امیرالمومنین اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ آپ نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جس کے سوا کوء معبود نہیں مگر وہی یہاں تک عبیدہ نے تین بار قسم کا مطالبہ کیا اور آپ نے تین بار ہی اس کے لیے قسم کھائی۔ [صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2460]