کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 734
اور ان سے قتال کرنا افضل ہے۔ اگرفرض کرلیا جائے کہ جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی وہ کافر تھے ؛تو اگریہ کہا جائے کہ: وہ مرتد تھے ؛ جیسا کہ روافض کا عقیدہ ہے۔ ٭ تو یہ سبھی جانتے ہیں کہ جو مرتد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو رسول مانتا ہوں جیسے مسیلمہ کذاب اور اس کے ہمنوا؛تو یہ لوگ ان کی نسبت بڑے مرتد تھے جو امام کی اطاعت کااقرار نہیں کرتے تھے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے تھے۔ بہر حال کچھ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے والوں کا کوئی بھی گناہ ذکر نہیں کیا جا سکتا مگر جن لوگوں نے اس سے قبل خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے قتال کیا ان کا گناہ اس سے بڑھ کر تھا۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوکر لڑنے والوں کے لیے کوئی فضیلت اور ثواب بھی ذکر کیا جائے تو وہی اجرو ثواب اس سے بڑھ کر ان لوگوں کے لیے ہوگا جنہوں نے حضرات خلفاء ثلاثہ کے ساتھ مل کرجنگیں لڑیں ۔ ٭ یہ اس صورت میں ہوگا جب یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ لڑنے والے کافر تھے۔لیکن سبھی لوگ جانتے ہیں کہ یہ قول باطل ہے۔ یہ بات صرف ردی قسم کے شیعہ ہی کہہ سکتے ہیں [کوئی دوسرا نہیں ]؛ ان کے اہل عقل لوگ ایسی بات نہیں کہتے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت سے تواتر کے ساتھ معلوم ہوا ہے کہ آپ ان لوگوں کو کافر نہیں کہتے تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگیں لڑیں ۔ یہ تمام باتیں اس وقت ہوسکتی ہیں جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ قتال مامور بہ تھا۔اوریہ تسلیم کیا جانا کیسے ممکن ہوسکتا ہے جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد علماء کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف مشہورو معروف ہے کہ کیا یہ جنگیں اہل بغاوت کے ساتھ جنگیں تھیں کہ جب ان کی شرائط پائی جائیں تو جنگ لڑنا واجب ہوجاتا ہے۔یا پھر موجب قتال شروط کے انتفاء کی وجہ سے بغاوت کی جنگیں نہیں تھیں ۔اوریہ کہ ان جنگوں میں داخل ہونے سے بہتر و افضل یہ تھا کہ انسان ان سے بچ کر اور دوررہے۔ اور بعض علماء کرام نے انہیں فتنہ کی جنگیں شمار کیا ہے۔ جمہور محدثین اور جمہور ائمہ و فقہاء رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ : باغیوں سے جنگ کرنا اس وقت تک جائزنہیں ہے جب تک وہ خود جنگ نہ چھیڑدیں ۔قدوری میں ایسے ہی ذکر کیا گیا ہے۔ اہل صفین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ نہیں چھیڑی تھی۔ ایسے ہی مدینہ؛ شام ؛ بصرہ ؛کے بڑے بڑے فقہاء‘اوربڑے بڑے فقہاء حدیث جیسے امام مالک ‘ ایوب ‘ اوزاعی‘ اور امام احمد رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ یہ جنگیں مامور بہ نہیں تھیں ۔اوران سے ہاتھ کھینچ لینا جنگ لڑنے سے بہتر تھا۔جمہور ائمہ اہل سنت والجماعت کا یہی قول ہے۔جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر دلالت کرتی ہیں ۔بخلاف حروریہ اور خوارج اور اہل نہروان کے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور سنت و احادیث کی روشنی میں ان لوگوں سے جنگ کرنا واجب تھا۔اس پر صحابہ کرام اور ائمہ اہل سنت کااتفاق ہے۔ ٭ صحیحین میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے قلعوں میں سے ایک قلعہ پر چڑھے اورپھر ارشاد فرمایا:’’ کیا تم وہ دیکھ رہے ہو جو