کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 733
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خوارج کی طرف سے وہ مشکلات اور تکلیف نہیں اٹھانی پڑی جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اصحاب کو مسیلمہ کذاب کے لشکر کی طرف اٹھانا پڑی تھیں ۔ روم اور فارس کے متعلق تو کوئی عاقل شک کرہی نہیں سکتا کہ ان سے جنگ کرنا عرب مسلمانوں کے برسر پیکار ہونے کی نسبت بہت زیادہ سخت تھا۔ اگرچہ شروع میں عرب مسلمانوں نے جو عرب کفار سے جہاد کیا وہ بہت ہی افضل اور عظیم الشان تھا۔ اس لیے کہ اس وقت مسلمان تھوڑی تعداد میں اور کمزور تھے؛ اس لیے نہیں کہ ان کا دشمن اہل فارس و روم کی نسبت بہت سخت جنگجوتھا۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ﴾ [آل عمران۱۲۳]
’’اور بلاشبہ یقیناً اللہ نے بدر میں تمھاری مدد کی، جب کہ تم نہایت کمزور تھے۔‘‘
ان لوگوں کوباہم جمع کرنے والی چیز دعوت اسلام اور مجانست تھی۔پس ان کے مابین جنگ کی وجہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جیسے اہل فارس و روم اور مجوس عرب اورنصاری کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کی وجہ تھی۔ یہ لوگ عرب مسلمانوں کو اپنے سب سے کمزور پڑوسی اور رعایا گمان کرتے تھے۔اور انہیں انتہائی حقیر سمجھتے تھے۔اگر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ان لوگوں کے سامنے ایسے ثابت قدم نہ رکھتے اور تائید سے نہ نوازتے جیسا کہ اس سے پہلے انبیاء اور اہل ایمان کی نصرت کی جاتی رہی ہے ؛ تو یہ عرب مسلمان ان اہل فارس و روم کے سامنے ٹک نہ پاتے ‘ اور نہ ہی ان کے ملک اورشہر فتح کرسکتے۔ان کے پاس فوجی تعداد بہت زیادہ تھی ‘ اور بے پناہ اسلحہ اور قوت بھی حاصل تھی ۔لیکن اہل ایمان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے قوت ایمانی سے نوازاہوا تھا جو صرف ان لوگوں کے ساتھ ہی خاص تھی۔
دوسری وجہ:....حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دور دراز کے لوگوں کو اہل جمل اور خوارج کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے نہیں بلایا تھا۔جب آپ بصرہ تشریف لائے تو آپ کے دل میں کسی سے جنگ کرنے کا کوئی خیال نہیں تھا۔بلکہ جنگ جمل حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے مابین غیر اختیار اورغیر ارادی طور پر پیش آئی۔ جب کہ خوارج کے لیے آپ کے لشکر کا کچھ حصہ ہی کافی تھا۔ آپ نے حجاز کے اعراب میں سے کسی ایک کو ان جنگوں میں شرکت کرنے کے لیے نہیں بلایا۔
تیسری وجہ:....اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ ان لوگوں سے جنگیں لڑنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت واجب تھی‘ تو یہ بات ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے کی اطاعت واجب کردے جو نمازیوں کو صرف اس بنا پر قتل کر رہا ہو کہ ولی امر کی اطاعت میں داخل ہوجائیں ؛ اورایسے لوگوں کی اطاعت کا حکم نہ دے جو کفار سے اس لیے جنگ لڑ رہے ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئیں ۔
یہ بات معلوم شدہ ہے کہ : جو انسان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے نکل جائے وہ اس انسان کی نسبت اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سے دور نہیں ہوسکتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن حکیم کی تکذیب کرتا ہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات میں سے کسی بھی چیز کا اقرار نہ کرتا ہو۔بلکہ ان لوگوں کا گناہ بہت بڑا ہے ‘ اور انہیں اسلام کی دعوت پیش کرنا