کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 732
پھریہ بات بھی محال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے وہ سبھی ظالم و سرکش اور باغی قسم کے لوگ ہوں ۔ اور ان کی اطاعت کسی بھی چیز میں واجب نہ ہوتی ہو۔ یہ بات قرآن کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت پر اچھے اجر کا وعدہ کیا ہے۔اوراپنی اطاعت سے روگردانی کرنے والوں کو دردناک عذاب سے ڈرایا ہے۔
اس آیت سے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے عادل ہونے پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے صرف دعوت جہاد دینے پر اطاعت کرنے والوں کے لیے بہترین اجروثواب کا وعدہ کیا ہے۔ اور ان کے حکم سے روگردانی کرنے والے کو بھی پہلے والوں کی طرح دردناک عذاب کا مستحق ٹھہرایا ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جہادکرنے والا امیر جب فاسق و فاجر ہو توپھر اس کی اطاعت مطلق طور پر واجب نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں کی جائے گی۔اور اس کے احکام سے روگردانی کرنے والا ایسے نہیں ہوسکتا جیسے اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے روگردانی کرنے والا۔بخلاف ان لوگوں کے جو خلفاء راشدین کی اطاعت سے روگردانی کرنے والے ہیں ۔ ان کے احکام سے منہ موڑنے والا ایسے ہی ہے جیسے اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے منہ موڑنے والا ۔ اس لیے کہ خلفاء راشدین کے احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق ہی ہوا کرتے تھے۔
خلاصہ کلام! اس موقعہ پر اس جملہ سے استدلال کرنا انتہائی دقیق امر ہے۔ اس کی یہاں پر ہمیں کوئی ضرورت نہیں ۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ دیگر اتنے دلائل ہیں جو ہمارے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ۔
[زیر تبصرہ آیت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ]:
[اشکال]: رافضی مصنف نے کہا ہے: اوریہ بھی جائز ہوسکتاہے کہ : یہ داعی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوں ۔ اس لیے کہ آپ نے عہد توڑنے والوں اور نافرمانوں اور دین سے خروج کرنے والوں سے جہاد کیا۔ یعنی اہل جمل و صفین و حروریہ اور خوارج ۔[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:رافضی کا یہ دعوی کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
پہلی وجہ:....یہ لوگ کسی بھی طرح اپنی ہی جنس کے لوگوں سے زیادہ سخت جنگجو ہر گزنہیں تھے۔بلکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جن لوگوں سے جمل کے دن واسطہ پڑا وہ آپ کے لشکر کی نسبت بہت کم تھے۔اور آپ کا لشکر ان کے کی نسبت بہت زیادہ تھا۔ایسے ہی خوارج کی نسبت آپ کا لشکر کئی گنا زیادہ تھا۔ایسے ہی اہل صفین سے بھی آپ کا لشکر بڑھ کر تھا۔ اور ان لوگوں کا تعلق ان ہی کی ایک ہی جنس سے تھا۔سخت جنگجو ہونا ان کا وصف ہر گز نہیں ہو سکتا؛ جس کی بنا پر انہیں دوسروں سے جدا کیا جاسکتا ہو۔
یہ بات معلوم شدہ ہے کہ بنو حنیفہ اور اہل فارس و روم ان لوگوں سے کئی درجہ زیادہ سخت جنگجو اور لڑاکے تھے اور اصحاب