کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 731
٭ یہاں پریہ بیان کرنا مقصود ہے کہ شروع اسلام میں معاملہ اس بات پر منحصر نہیں تھا کہ مسلمان ان سے جنگ کریں یا وہ اسلام لائیں ۔ اس لیے کہ اس وقت ایک تیسری حالت تھی یعنی کہ ان سے معاہدے کرنا۔ جب آیت جزیہ نازل ہوئی تو اس وقت سے ان کیساتھ جنگ کرنا یا پھر ان کا اسلام لانا ضروری ہوگیا۔ پس اس وقت یہ لوگ یا توبرسکار پیکار ہوگئے یا پھر مسلمان ہوگئے۔یہ نہیں کہا: تم ان سے جنگ کرو گے یاپھر وہ اسلام لائینگے۔ اگر ایسا فرمایا گیا ہوتا تو پھران کے مسلمان ہونے تک ان سے جنگ کرنا واجب ہوجاتا۔ جب کہ اب معاملہ ایسے نہیں ۔بلکہ جب بھی وہ لوگ جزیہ ادا کردیں تو ان سے کوئی جنگ نہیں کی جائے گی۔ جن لوگوں کے متعلق زیر بحث آیت میں بیان ہوا ہے؛ وہ یا تو جنگ کریں گے یا پھراسلام لائیں گے۔ اوربغیر جنگ کے وہ جزیہ بھی ادا نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ وہ طاقتور لڑاکے ہیں ۔اوران کے ساتھ بغیر جزیہ کے جنگ بندی کرنا بھی جائز نہیں ۔ ٭ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی اپنی خلافت کے دور میں ان لوگوں کے ساتھ جہاد کیا اور اہل شام و عراق اور اہل مغرب پر جزیہ نافذ کیا گیا۔ ان لوگوں سے سب سے زیادہ سخت جنگیں اور معرکے ان حضرات کے دور خلافت میں پیش آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر ان لوگوں سے جنگ نہیں کی۔ غزوہ مؤتہ کے موقعہ پر اہل شام غالب رہے ‘ اس موقعہ پر حضرت زید‘حضرت جعفر اورحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم شہید ہوگئے ۔ ان کے بعد اسلامی پرچم حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے سنبھال لیا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس موقعہ پر باقی مسلمان بچ کر نکل گئے۔ جب کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ہم ان سے قتال کریں گے یا پھر وہ اسلام قبول کرلیں گے۔یہ تینوں خلفاء راشدین کی صفت ہے۔پس اس آیت کا غزوہ مؤتہ کے ساتھ خاص ہونااور اہل عراق و شام ‘مصر و مغرب اورخراسان کا اس سے خارج ہونا ممتنع ہے؛یہی تو وہ معرکے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطاء فرمایا ؛ ہدایت غالب آئی اور زمین کے مشرق و مغرب میں اسلام کو سر بلندی و عظمت نصیب ہوئی۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ: اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ جہاد پر بلانے والے ہر امیر کے ساتھ جہاد کیا جائے گا خواہ وہ امیر نیک ہو یا بدکردارو فاجر۔اس لیے کہ اس حدیث میں کہیں بھی یہ صراحت نہیں ہے کہ وہ امام عادل ہی ہوگا۔ تو اس کاجواب یہ ہے کہ : ’’ یہ چیز اہل سنت و الجماعت کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس لیے کہ رافضی صرف امام معصوم کے ساتھ مل کرہی جہاد کو جائز سمجھتے ہیں ۔اوران کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی دوسرا معصوم نہیں ۔جب کہ یہ آیت رافضیوں پر حجت ہے کہ تمام امراء کے ساتھ مل کر دشمن سے جہاد کرنا واجب ہے۔ جب یہ مسئلہ ثابت ہوگیاتو حضرت ابوبکروعمراورعثمان رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان لوگوں میں سب سے افضل تھے جنہوں نے کفار سے جہاد کیا۔
[1] فِی الموطأ1ِ؍ 278(کتاب الزکاۃِ، باب جِزیۃِ أہلِ الکِتابِ والمجوسِ)حدیثِ نمبر41میں ہے: ابن شہاب سے روایت ہے کہ پہنچا مجھ کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لیا بحرین کے مجوس سے اور عمر بن خطاب نے جزیہ لیا فارس کے مجوس سے اور عثمان بن عفان نے جزیہ لیا بربر سے ۔اور اس سے اگلی روایت میں ہے : امام محمد بن باقر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ذکر کیا مجوس کا اور کہا کہ میں نہیں جانتا کہ ان کے بارے میں کیا کروں ؟ تو بدالرحمن بن عوف نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’سنوا بِہِم سنۃ أہلِ الکِتاب۔‘‘ ’’ ان سے وہ طریقہ برتو جو اہل کتاب سے برتتے ہو ۔‘‘نیز دیکھیں : صحیح البخاری کتاب الجزیۃ ‘ باب الجزیۃ و الموادعۃ مع أہل الحرب ۔