کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 727
سورت میں اعراب کو ان لوگوں سے قتال کرنے دعوت ہے۔ صلح حدیبیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورت فتح نازل فرمائی۔اور مسلمانوں کو بھی یہی دعوت دی گئی ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْن﴾
یہ آیت ان لوگوں کے برعکس پر دلالت کرتی ہے جنہیں عام حدیبیہ میں بلایا گیا تھا۔ اس میں فرق دو وجوہات کی بنا پر ہے:
پہلی وجہ:....مستقبل میں جن لوگوں سے جنگ کے لیے بلایاجائے گا وہ بہت سخت جنگجو ہوں گے ؛ بخلاف اہل مکہ دیگر عرب کے۔
دوسری وجہ:....یہ کہ تم ان لوگوں سے جنگ کروگے یا پھر وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ تمہیں یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ ان کے صلح کرو ؛ یا پھر ان کے اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ جزیہ دیے بغیر کوئی معاہدہ کرو ؛ جیسا کہ اہل مکہ سے قتال کیا گیا تھا۔ بلکہ ان لوگوں سے جزیہ لینے تک جنگ ہوگی۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ سخت جنگجو قوم وہ لوگ نہ تھے جن کے ساتھ جزیہ کے بغیر معاہدہ کیا گیا۔بلکہ ان لوگوں سے یا تو جنگ ہوگی یا پھر اسلام لے آئیں گے۔ اورجن کے ساتھ بلاجزیہ کے معاہدہ کیا جائے گا وہ ایک تیسری حالت میں ہے‘ یہ وہ لوگ ہیں جن سے نہ ہی جنگ ہوگی اور نہ ہی وہ مسلمان ہونگے۔ لیکن یہ لوگ جنس عرب میں سے وہ لوگ بھی نہیں جن سے اس سے پہلے جنگ کی گئی۔
پس اس سے واضح ہوگیا کہ یہ وصف ان لوگوں کو شامل نہیں ہے جن کے ساتھ حنین میں یا دوسرے مواقع پر جنگ لڑی گئی۔اس لیے کہ یہ لوگ جنس عرب سے ہی تھے؛ ان سے بڑھ کر لڑاکے نہیں تھے؛اور ان کی جنگیں بھی اسی جنس سے تعلق رکھتی تھیں جیسا کہ اس سے پہلے اہل عرب سے جنگیں ہوچکی۔
پس یہ واضح ہوگیا کہ آیت مذکورہ میں بیان کردہ اوصاف اہل فارس و روم کے ہیں ؛ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ یا تو ان لوگوں سے جنگ کی جائے گی یا پھر وہ اسلام قبول کرلیں ۔ اورجب جنگ ہوگی تو پھر اس وقت تک جنگ رہے گی جب تک وہ ذلت کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے جزیہ نہ ادا کردیں ۔
اگر یہ کہا جائے: مرتدین کے ساتھ جنگ و قتال بھی اس میں داخل ہے ؟اس لیے کہ ان سے بھی یا توجنگ ہو گی یا پھر وہ اسلام قبول کرلیں گے۔ تو پھریہ کہنا بھی مناسب ہوگا کہ اس میں اہل مکہ اور اہل حنین کے ساتھ جنگ بھی شامل ہے‘ جن کے ساتھ فوری جنگیں ہوئیں ؛اس وقت ان کے ساتھ جنگ بندی کرنا بھی جائز تھا۔ نہ ہی وہ اسلام لاتے اورنہ ہی جنگ کرتے۔ فتح مکہ اور حنین والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سارے کفار کے مابین بلاجزیہ معاہدے موجود تھے۔ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا فرمایا۔ لیکن سن نو ہجری غزوہ تبوک والے سال کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے سورت برأت نازل