کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 726
اہل حدیبیہ کا جنگی زور ان جیسا نہیں تھا۔ اور اس موقع پر نہ ہی قتال ہوا اور نہ ہی کافروں نے اسلام قبول کیا ؛ [بلکہ ان کے ساتھ صلح کرلی گئی]۔ فتح مکہ والے سال بھی ایسے ہی ہوا۔ شروع میں ان لوگوں نے نہ ہی اسلام قبول کیا اور نہ ہی جنگ کی ۔ مگر آخر کار انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ لوگ اہل روم و فارس ہیں ۔اگریہ لوگ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے قتال کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ قتال کی پہلی دعوت سریہ مؤتہ و غزوہ تبوک کے موقع پر دی گئی۔ تبوک والے سال ان لوگوں نے نہ ہی جنگ کی اور نہ ہی اسلام قبول کیا۔لیکن حضرت ابوبکر صدیق اور عمرفاروق رضی اللہ عنہما کے مبارک زمانے میں دو میں سے ایک کام کا ہونا ضروری تھا ؛ یا تو اسلام قبول کریں یا پھر جنگ کے لیے تیار ہوجائیں ۔ ان لوگوں نے قتال کے بعد جزیہ ادا کیا ۔انہوں نے شروع میں ایسے صلح نہیں کی جیسے حدیبہ کے موقع پر مشرکین نے صلح کرلی تھی۔ پس حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا لوگوں کو ان لوگوں کے خلاف جنگ وقتال کے لیے بلانا اس آیت میں شامل ہے۔ اور یہی ثابت کرنا مقصود ہے ۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اس کا معنی و مفہوم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتال کو شامل نہیں ۔اس لیے کہ جن لوگوں سے آپ نے جنگ لڑی ؛ وہ آپ کے ساتھیوں سے زیادہ سخت جنگجو نہیں تھے۔بلکہ وہ ان کی جنس کے ہی لوگ تھے۔ اور آپ کے ساتھ ان سے زیادہ سخت جنگ لڑنے والے تھے۔ نیز ان پر قتال یا اسلام قبول کرنے کا اطلاق بھی نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ سبھی مسلمان تھے۔ پس رافضی مصنف نے جو لکھا ہے کہ : ’’ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تیری جنگ میری جنگ ہے ‘‘ اس کی سند اس نے ذکر نہیں کی۔پس اسے حجت قائم نہیں ہوسکتی۔حقیقت میں یہ روایت من گھڑت ہے۔ اور اس کے موضوع ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔‘‘ اس کی مزید وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ سورت برأت اور آیت جزیہ کے نازل ہونے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی تو مشرکین اوراہل کتاب کفار کے ساتھ جنگ کرتے او ر کبھی ان کے ساتھ معاہدہ کرتے ۔ ان کے ساتھ قتال یا ان کے اسلام قبول کرنے کی نوبت نہ آتی۔جب اللہ تعالیٰ نے سورت برأت نازل فرمائی ؛ اور اس میں حکم دیا کہ کفار کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے انہیں واپس کیے جائیں ۔ اوراس کی جگہ یہ حکم دیا کہ کفار سے اس وقت تک جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ ذلت قبول کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے جزیہ ادا کریں ۔ اس وقت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امر پرمامور ہوگئے کہ لوگوں کوان اقوام کے ساتھ جنگ کرنے کی دعوت دیں جن کا اسلام قبول کرنا یا ان سے جنگ کرنا ضروری ہے اور جب ان سے جنگ کی جائے تو اس وقت تک جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ لوگ یا تو اسلام قبول کرلیں یا پھر اپنے ہاتھوں سے جزیہ ادا کریں ۔ اب یہ اختیار باقی نہیں رہا کہ جزیہ ادا کیے بغیر ان سے کوئی معاہدہ کیا جائے۔ جیسا کہ اس سے پہلے کفار اور مشرکین سے معاہدے کیے جاتے تھے۔جیسا کہ حدیبیہ والے سال اہل مکہ سے صلح کا معاہدہ کیا تھا۔ اس