کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 725
نے اہل مکہ اوراہل ھوازن اور اہل ثقیف سے قتال کے لیے بلایا تھا ۔
پھر جب ان کے بعد بنی اصفر سے قتال کے لیے بلایا تو یہ لوگ سخت جنگجو اور لڑاکے تھے۔ قرآن نے عام تبوک والے سال کی بڑی تاکید آئی ہے۔اور اس موقع پر جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کی بہت سخت مذمت کی ہے۔جیسا کہ سورت برأت میں اس کے دلائل موجود ہیں ۔ان لوگوں میں یقیناً دو میں سے ایک بات پائی جاتی تھی : یا تو اسلام قبول کرنا یا پھر قتال کرنا۔ اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایاہے :
﴿تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ﴾’’ تم ان سے جنگ کرتے ہویا پھر صلح کرتے ہو ۔‘‘
یہ نہیں فرمایا کہ تم ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیں ۔اور نہ ہی یہ فرمایا کہ : ان سے اسلام قبول کروانے کے لیے جنگ کرو۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ صفت بیان کی ہے کہ یا تووہ لوگ بہت سخت جنگ کریں گے یا پھر اسلام قبول کرلیں گے۔ اور اگر ان سے قتال کیا جائے تو اس وقت تک قتال ہوگا یہاں تک کہ یہ لوگ ذلت کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے جزیہ ادا کریں ۔
پس اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :﴿تُقَاتِلُوْنَہُمْ﴾۔’’ تمہیں ان سے لڑنا ہوگا ‘‘میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ان کو اسلام پر لانے یا جزیہ اداکرنے کے لیے لڑنے کے معانی میں مانع ہو۔ لیکن ان سے کہا جائے گا: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :
﴿سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ﴾
’’ عنقریب تمہیں ایک سخت جنگجو قوم سے مقابلہ کے لیے بلایا جائے گا۔‘‘
اس کلام سے فاعل حذف کردیا گیا ہے۔پس یہاں پر فاعل یعنی جہاد و قتال کی طرف بلانے والے کو متعین نہیں کیا گیا۔ پس قرآنی دلالت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ جو بھی [امام و حاکم ]کسی سخت قوم سے لڑنے کے لیے بلائے کہ یا تو ان سے قتال کیا جائے یا پھر وہ اسلام قبول کرلیں ‘تو اس کی اطاعت کرنا واجب ہوجاتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کومرتدین کے ساتھ جنگ و قتال کی طرف بلایا ؛ پھر روم اور فارس سے جنگ کی دعوت دی۔ ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روم و فارس سے قتال کرنے کی دعوت دی۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بربر اور دوسری قوموں سے جہاد کی طرف بلایا۔ یہ آیت ان تمام لوگوں کو شامل ہے۔
لیکن اس دعوت کو صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص کرنا ‘جیسا کہ آپ کی خلافت استدلال کرنے والے ایک گروہ کا کہنا ہے؛یہ غلط ہے۔ بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ یہ آیت ان تمام حضرات کو شامل ہے تو یہ بات بہت مناسب ہے۔اور ممکن ہے کہ آیت سے یہی مراد ہو ‘ اور اس پر استدلال کیا جاسکتا ہو۔ پس اس لیے ہر امیر کے ساتھ جہاد کرنا واجب ہوجاتا ہے جو کفار سے جنگ و قتال کے لیے لوگوں کو بلائے۔ پس اس سے مراد یہ ہوگی کہ آپ کوایسی قوم سے جنگ کے لیے بلایا جائے گا جو عربوں سے زیادہ سخت جنگجو ہوں گے۔ پس اس وقت دو باتوں میں سے ایک کا ہونا لازمی ہے ؛ یا تو وہ اسلام قبول کرلیں یا پھر جنگ کریں [اور قتل کردیے جائیں ]۔یہ حدیبیہ کے واقعہ کے برعکس ہے۔ اس لیے کہ