کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 724
تھا ؛ ان سے بڑھ کر جنگجو اور قتال کرنے والے ہوں ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں : ﴿ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ﴾’’ سخت جنگجو قوم سے مقابلہ کے لیے۔‘‘ یہ دو گروہ ہی ہوسکتے ہیں : پہلا گروہ:....بنی اصفر : جن سے جنگ کے لیے سن نو ہجری میں تبوک والے سال لوگوں کو بلایا گیا تھا۔بلاشبہ یہ لوگ سخت جنگجو تھے۔یہ لوگ اس صفت کے دوسروں سے زیادہ حق دار تھے۔ ان لوگوں سے جنگ کا پہلا واقعہ مؤتہ والے سال پیش آیا۔یہ تبوک سے پہلے سن آٹھ ہجری کا واقعہ ہے۔اس معرکہ میں مسلمان امراء : حضرت زیدبن حارثہ ‘ حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہم شہید ہوگئے تھے۔ اور مسلمان پسپا ہوکر واپس پلٹے تھے۔ پس ان لوگوں نے واپس آنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تھی: ’’ ہم میدان جنگ سے بھاگنے والے ہیں ۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نہیں بلکہ تم پلٹ کر آنے والے ہو؛ میں تمہاری جماعت ہوں ؛ اور ہر مسلمان کی جماعت ہوں ۔‘‘ لیکن بعض علماء نے ان الفاظ :﴿تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ﴾’’ تم ان سے جنگ کرتے ہویا پھر صلح کرتے ہو ‘‘ پر اعتراض کیا ہے ؛ ان کا کہنا ہے کہ : اہل کتاب سے تو اس وقت تک لڑا جاتاہے یہاں تک کہ وہ جزیہ ادا کردیں ۔ لیکن دوسرے گروہ نے اس کی تأویل یہ کی ہے کہ یہ آیت مرتدین کے متعلق ہے۔جن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جنگیں لڑیں ۔یہ مرتدین مسیلمہ کذاب کے ساتھی تھے۔بلاشک و شبہ یہ لوگ انتہائی سخت جنگجو تھے۔ اور ان کے ساتھ معرکوں میں مسلمانوں کو بہت زیادہ سختیاں اور پریشانیاں اٹھانا پڑیں ۔ سخت خونریز جنگیں ہوئیں ؛ قراء کی ایک جماعت شہید ہوگئی۔یہ مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے مابین بہت بڑی جنگیں تھیں ۔مرتدین کو یا تو قتل کیا جاتا ہے یا پھر وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں ۔ ان سے جزیہ قبول نہیں کیا جاتا۔اور ان سے سب سے پہلے جنگ لڑنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی تھے۔ پس دلیل سے اس قتال کی طرف بلانے پر آپ کی اطاعت کا وجوب ثابت ہوا۔ قرآن بتارہا ہے کہ ان لوگوں کو ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لیے بلایا جائے گا جس میں دو میں سے ایک صفت پائی جائے گی۔یا تووہ لوگ ان سے جنگ کریں گے۔یا پھر مسلمان ہوجائیں گے۔ ان دو میں سے ایک کام ہونالازمیہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ قوم سخت جنگجو بھی ہے۔ یہ اس کے خلاف ہے جو کچھ حدیبیہ کے موقع پر پیش آیا ۔ اس میں نہ ہی قتال ہوا؛ اور نہ ہی وہ لوگ مسلمان ہوئے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر جنگ کے اور بغیر ان کے اسلام کے ان لوگوں سے صلح کرلی اور واضح کردیا کہ جن لوگوں سے لڑنے کے لیے انہیں بلایا جائے گا وہ ان کے بعد ہوں گے۔ پھر اگر ان لوگوں کو جب سخت قوم سے لڑائی کے لیے بلایا جائے‘ اور ان پر اس دعوت کی اجابت اور اطاعت کو فرض کردیا جائے تو اس صورت میں جس وقت انہیں ایسی قوم سے لڑائی کے لیے بلایا جائے جو سخت جنگجو نہیں ہیں ‘تو پھر بھی ان پر اطاعت بالاولی فرض ہوگی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قتال کے وقت ان پر اطاعت واجب و فرض ہوگی جب آپ