کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 723
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن آٹھ ہجری میں فتح مکہ کی طرف بلایا؛ اس سے پہلے سن سات ہجری میں غزوہ خیبر ہوچکا تھا۔فتح مکہ کے بعد حنین کے مقام پر ہوازن سے جنگ کے لیے بلایا۔پھر اسی سن آٹھ ہجری میں طائف کا محاصرہ کیا ۔یہ آخری غزوہ تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کیا۔ پھر سن نو ہجری میں غزوہ تبوک پیش آیا ۔ لیکن اس میں جنگ و قتال نہیں ہوا۔ یہ غزوہ شام کے عیسائیوں کے خلاف تھا۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورت برأت نازل فرمائی؛ اس میں پیچھے رہ جانے والوں کاذکر کیا گیا : جن کے متعلق فرمایا گیا ہے : ﴿فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّا﴾ [التوبۃ ۸۳] ’’ تو آپ فرما دیجئے : تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کر سکتے ہو۔‘‘ جب کہ موتہ سریہ تھا۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’تمہارا امیر زید رضی اللہ عنہ ہے؛ اگروہ قتل ہوجائے تو پھر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ؛ اوراگر وہ بھی قتل ہوجائیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ۔ [سبق تخریجہ] اس سے پہلے فتح مکہ سے قبل اور صلح حدیبیہ کے بعد عمرہ قضاء کا واقعہ بھی ہے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بلاشبہ عمرہ قضاء میں حاضر ہوئے تھے۔ان کا حضرت علی اور حضرت زید رضی اللہ عنہم کے ساتھ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بچی کی کفالت کے متعلق اختلاف بھی ہوا تھا۔اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے حق میں فیصلہ دیا جو کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ۔آپ اس بچی کی خالہ تھیں ۔آپ نے فرمایا: ’’ خالہ ماں کی جگہ پر ہے ۔‘‘[سبق تخریجہ] حضرت زید؛ حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک بھی فتح مکہ میں نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ تینوں حضرات اس سے قبل شہید سریہ مؤتہ میں ہوچکے تھے۔ جب یہ معلوم ہوگیا تو اس آیت سے وجہ استدلال صاف ظاہر ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ﴾ ’’ عنقریب تمہیں ایک سخت جنگجو قوم سے مقابلہ کے لیے بلایا جائے گا۔ تمہیں ان سے لڑنا ہوگا یاوہ مطیع ہو جائیں گے۔‘‘ یہ دلیل ہے کہ وہ لوگ سخت لڑاکے ہوں گے۔اوریہ کہ وہ جنگ لڑیں گے یا تابع فرماں ہوجائیں گے۔ ان علماء کرام کا کہنا ہے : یہ ممکن نہیں کہ آپ نے عام فتح کے فوراً بعد اہل مکہ یا ہوازن کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے بلایا ہو ۔اس لیے کہ ان لوگوں کی طرف ہی تو صلح حدیبیہ والے سال بلایا گیا تھا۔پس جو کوئی ان میں سے نہ تھا ‘ وہ ان ہی کی جنس میں سے تھا۔وہ ان سے زیادہ سخت جنگجو نہیں ہوسکتا۔یہ تمام عرب اہل حجاز تھے۔ ان سے جنگ ایک ہی جنس کی جنگ تھی۔اہل مکہ اور اس کے گردو نواح والے بدر و احد اورخندق ‘اور دیگر مواقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام سے اس سے بڑھ کر جنگ و قتال کرنے والے تھے۔ پس یہ ضروری ہے کہ جن لوگوں سے جنگ کرنے کے لیے بلایا جارہا ہو؛ وہ حدیبیہ والے سال جن لوگوں سے پالا پڑا