کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 722
کے بعد آنے والے خلیفہ و نائب ہیں جو ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم ہی ہو سکتے ہیں ، جنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فارس و روم اور دوسرے لوگوں کے خلاف جنگیں لڑیں ،یا ان کے ساتھ معاہدے کیے ؛ جیسا کہ آیت میں ہے : ﴿تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ﴾۔’’ تمہیں ان سے لڑنا ہوگا یا وہ مطیع ہو جائیں گے۔‘‘ ان کے نزدیک سورۂ الفتح میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۂ توبہ میں بھی انہی سے خطاب کیا گیا ہے، اسی بنا پر یہ دلیل محل نظر وتامّل ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ جن لوگوں کا ذکر سورت فتح میں ہے ‘ انہی لوگوں کو حدیبیہ کے زمانہ میں دعوت دی گئی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نکلیں ‘اورپھر قریش نے انہیں روک لیا تھا۔اور پھر حدیبیہ کے مقام پر صلح کا واقعہ پیش آیا۔ اور مسلمانوں نے اس درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ سورۂ الفتح بالاتفاق صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔یہ بالاتفاق سن چھ ہجری کا واقعہ ہے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی تھی: ﴿وَ اَتِمُّوا الحج وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ﴾ [البقرۃ ۱۹۶] ’’اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو، پھر اگر تم روک دیے جاؤ تو قربانی میں سے جو میسر ہو (کرو)۔‘‘ اور اسی موقع پر حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی تکلیف کی وجہ سے یہ حکم بھی نازل ہوا: ﴿فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ ﴾ [البقرۃ ۱۹۶] ’’تو روزے یا صدقے یا قربانی میں سے کوئی ایک فدیہ ہے۔‘‘ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ واپس آئے تو خیبر کی طرف نکلے۔سن سات ہجری کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں پر خیبر فتح کیا۔اسی سال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسلام لائے ؛اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین حبشہ سے واپس تشریف لائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے اموال غنیمت میں سے حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں کوکوئی حصہ نہیں دیا ؛ سوائے ان لوگوں کے جو کشتی میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ سے تشریف لائے تھے۔اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی تھی: ﴿سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِِذَا انطَلَقْتُمْ اِِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلَامَ اللّٰہِ قُلْ لَنْ تَتَّبِعُوْنَا کَذٰلِکُمْ قَالَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلُ فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا ﴾....آگے تک ....﴿تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ ﴾ [الفتح ۱۵۔۱۶] ’’جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیں ؛آپ کہہ دیجئے: اللہ تعالیٰ ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے ‘وہ اس کا جواب دیں گے(نہیں نہیں )بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔....آگے تک ....’’ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے۔‘‘