کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 721
ان کی امثال دیگروہ آیات جن میں اس امت کے اہل ایمان کی تعریف کی گئی ہے؛ سو ابوبکر رضی اللہ عنہ ان صفات میں سب سے زیادہ کامل و اکمل ہیں جن کی وجہ سے اہل ایمان کی تعریف کی گئی۔ اور آپ ان آیات کے مصداق میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ حق دار ہیں ۔اور جو لوگ ان آیات کے مصداق میں داخل ہیں ‘ ان میں سب سے اکمل ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ فصل:....آیت ﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ﴾سے شیعہ کا استدلال [اعتراض]:رافضی مصنف نے کہا ہے :’’رہی یہ آیت :﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ﴾؛ مراد یہ ہے کہ : ہم تمہیں ایک قوم کی طرف بلائیں گے۔ یہاں پر مقصودوہ لوگ ہیں جو صلح حدیبیہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اور یہ لوگ چاہتے تھے کہ خیبر کامال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جائیں ۔تو اللہ تعالیٰ نے انہیں روک دیا؛ اورفرمایا: ﴿ قُلْ لَنْ تَتَّبِعُوْنَا﴾ آپ فرمادیجیے: تم ہرگزہماری اتباع نہ کرو گے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خیبر کے اموال غنیمت کو ان لوگوں کے لیے خاص کردیا تھا جو صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے ۔ پھر فرمایا :﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ﴾ ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہت سارے غزوات کی طرف بلایا تھا؛ جن میں غزوہ مؤتہ؛غزوہ حنین؛ تبوک اور دوسرے غزوات۔پس یہ داعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ اوریہ بھی جائز ہے کہ : یہ داعی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوں ۔ اس لیے کہ آپ نے عہد توڑنے والوں اور نافرمانوں اور دین سے خروج کرنے والوں سے جہاد کیا۔ان لوگوں کا آپ کی اطاعت کی طرف رجوع کرنا ہی اصل اسلام تھا۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ’’ اے علی ! تیرے ساتھ جنگ کرنا میرے ساتھ جنگ کرنا ہے ۔‘‘ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنا کفر ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]: اس آیت سے بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت اور آپ کی اطاعت کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ان علماء میں امام شافعی، امام اشعری اورابن حزم وغیرہ رحمہم اللہ شامل ہیں ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے: ﴿فَاِنْ رَّجَعَکَ اللّٰہُ اِلٰی طَآئِفَۃٍ مِّنْہُمْ فَاسْتَاْذَنُوْکَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّا﴾ (التوبۃ:۸۳) ’’پھر اگر اللہ آپ کو ان منافقوں کے کسی گروہ کی طرف واپس لائے اور وہ آپ سے جہاد پر نکلنے کی اجازت مانگیں تو ان سے کہئے کہ : تم میرے ساتھ کبھی نہ نکلو گے اور نہ میرے ہمراہ دشمن سے جنگ کرو گے ۔‘‘ ان حضرات کا کہنا ہے: ’’ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ فرمادیں : ’’تم میرے ساتھ کبھی نہ نکلو گے اور نہ کبھی میرے ہمراہ دشمن سے جنگ کرو گے ۔‘‘ اس آیت کے مضمون پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قتال کے داعی و محرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں ، بلکہ آپ
[1] بخاری:834، مسلم2705۔