کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 720
عِنْدِکَ وَ ارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ)) [1] ’’ اے اللہ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا بہت زیادہ ظلم ؛اور تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں ؛ تو مجھے بخش دے بخشش تیرے پاس سے؛ اور مجھ پر رحم فرمایا بے شک تو ہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ ساری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کوئی ایسا مال نہیں دیا جو صرف آپ کے ساتھ خاص ہو۔بلکہ جب آپ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت حاضر ہوتے تو آپ کی بھی وہی حیثیت ہوتی جو کسی بھی غنیمت پانے والے مجاہد کی حیثیت ہواکرتی تھی۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے سارا مال لے لیا تھا۔ جب کہ آپ کے علاوہ جو دوسرے لوگ خرچ کرنے والے ہوا کرتے تھے- خواہ انصار میں سے ہوں یا بنی ہاشم میں سے-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کچھ ایسے عطیات بھی دیا کرتے تھے جودوسروں کو نہیں دیتے تھے۔آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو خمس کے مال میں سے وہ مال دیا جو دوسروں کو نہیں دیا گیا۔آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری لگائی اور اس پر انہیں وظیفہ دیا۔ جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کبھی بھی کچھ بھی نہیں دیا۔ سو ابوبکر رضی اللہ عنہ بدلے والے احسان سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور تھے اور ایسی چیزسے سب سے زیادہ قریب تھے جس پر کوئی بدلہ نہیں دیا جاتا۔ جہاں تک اللہ کی رضامندی کے حصول کے لیے آپ کے اخلاص کا تعلق ہے؛ تو آپ کا اخلاص پوری امت میں سب سے زیادہ کامل و اکمل تھا۔پس معلوم ہوا کہ آپ ان لوگوں میں سب سے زیادہ کامل ہیں جو ان آیات میں مذکور اوصاف کے مصداق میں شامل ہیں ۔ جیسا کہ آپ اس آیت میں شامل ہونے والوں میں سب سے کامل ہیں: ﴿وَالَّذِیْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (الزمر۳۳) ’’اور وہ شخص جو سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پکے متقی ہیں ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کایہ فرمان: ﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی ﴾ [الحدید۱۰] ’’ تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کایہ فرمان : ﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ﴾ (توبۃ۱۰۰) ’’اور جو مہاجرین اور انصارمیں سے سابق اور مقدم ہیں ....۔‘‘
[1] عن عائِشۃ رضی اللہ عنہا فِی: البخارِیِ184؍3۔کتاب الصلحِ، باب ِذا اصطلحوا علی صلحِ جور۔مسلِم1343؍3 ِکتاب الأقضِیۃِ، باب نقضِ الأحکامِ الباطِلۃِ وردِ محدثاتِ الأمور۔سننِ بِی داود2؍280ِکتاب السنۃِ، باب فِی لزومِ السنۃِ۔سنن ابن ماجہ؛ المقدِمۃ، باب تعظِیمِ حدیثِ رسولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، والتغلِیظ عل من عارضہ، المسندِ۔