کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 718
مضاف کیا جاتا ہے۔بخلاف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ؛ اس لیے کہ آپ کے لیے ایمان باللہ کے سواء کوئی دوسرا سبب نہ تھا۔تو آپ اس فرمان ِالٰہی کی روشنی میں سب سے بڑے اور سچے متقی تھے۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿ اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی﴾ [اللیل ] ’’وہ تو صرف اپنے رب بلندو برتر کی رضامندی کے لیے دیتاہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰیo الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیo اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰیo﴾ [اللیل ۱۷۔۲۰] ’’ اور عنقریب اس سے وہ بڑا پرہیز گار دور رکھا جائے گا۔جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔ حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔مگر وہ تو اپنے بزرگ و برتر رب کی رضامندی طلب کرنے کے لیے د یتا ہے ۔‘‘ یہاں پر استثناء منقطع ہے ۔اس کا معنی یہ ہے : اس کی عطاء صرف اس انسان تک نہیں جس کا اس پر کوئی احسان ہے کہ اسے کوئی بدلہ دے۔سو بیشک آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا کرنا تو لوگوں پر عدل واجب میں سے ہے جو کہ ایجاریا خریدو فروخت میں معاوضہ کی منزلت پرہے۔ ایسا کرنا ہر ایک کے حق میں دوسرے پر واجب ہے ۔ اور جب کسی ایک پر کسی کا کوئی احسان نہ ہو جس کا وہ بدلہ دے رہا ہو؛ تو اس وقت یہ معاوضہ کی صورت باقی نہیں رہتی۔ پس اس صورت میں دینے والے کی عطاء صرف اللہ رب العالمین کی رضامندی کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ بخلاف اس انسان کے جس پر کسی کا احسان ہوتو اسے اس احسان کا بدلہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ باہم بدلہ دینا ضروریات میں سے ہے۔ یہ انسان جس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ وہ اس کا بدلہ دیا جائے۔اورجب وہ مال دیتا ہے تو اس کی طہارت کے لیے دیتا ہے۔اس کا معاملہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اچھا رہتا ہے‘وہ انہیں اچھا بدلہ دیتاہے‘ ان کااحسان چکاتا ہے؛ اوران کو مال دیتے وقت ان کی بھلائی کا معاوضہ دیتا ہے ۔لیکن کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ جائے۔ نیز اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ : صدقہ کرنے میں فضیلت اس وقت ہے جب انسان واجب معاوضات ادا کر دے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے : ﴿وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ [البقرۃ۲۱۹] ’’ اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں ، فرما دیجیے جو زیادہ ہو۔‘‘ پس جس انسان پر قرض یا ادھار یا دیگر کوئی واجبات یا دیگر ادائیگیاں ہوں ؛ تووہ صدقہ کو ان واجبات کی ادائیگی پر مقدم نہیں کرسکتا۔اگر کوئی انسان ایسا کر گزرے تو کیا اس کا صدقہ اسے واپس کیا جائے گایا نہیں ؟ اس میں علماء کرام رحمہم اللہ کے مابین دو قول مشہور ہیں ۔اس آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایسے آدمی کے صدقات اسے واپس