کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 717
سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو حضرت ابو طالب سے لیکر اپنی کفالت میں تربیت کی ۔اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی تک حضرت علی رضی اللہ عنہ فقیر ہی رہے۔یہ بات اہل سنت اور شیعہ کے ہاں معروف ہے۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عیال میں شمار ہوتے تھے۔آپ کے پاس اخراجات کے لیے کچھ بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔ اگر آپ کے پاس مال ہوتا تو آپ ضرور خرچ کرتے ؛ مگر آپ پر مال خرچ کیا جاتا تھا؛ آپ [ابھی تک] انفاق والوں میں سے نہیں تھے۔
دوسرا سبب:....اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی﴾۔[اللیل ۱۹]’’ حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔‘‘یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان ہے ؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نہیں ۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر یہ احسان تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بدولت انہیں ایمان کی دولت سے نوازا۔یہ ایسی نعمت ہے جس پر مخلوق میں سے کوئی ایک بھی بدلہ نہیں دے سکتا۔ بلکہ اس نعمت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجر صرف اللہ تعالیٰ پر ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِینَ﴾ (ص ۸۶)
’’کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘
اورارشاد ہوتا ہے:
﴿قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَہُوَلَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ ﴾ (سباء۴۷)
’’ فرما دیجئے: جو بدلہ تم سے مانگوں وہ تمہارے لیے ہے میرا بدلہ تو اللہ ہی کے ذمے ہے۔‘‘
٭ پس رہی وہ نعمت جس پر کوئی بدلہ دے سکتا ہے وہ دنیا کی نعمت و احسان ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دنیاوی احسان نہیں تھا۔بلکہ دینی احسان تھا۔بخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛ آپ پر [دینی احسان کے ساتھ ساتھ ]دنیاوی احسان بھی تھا ؛ جس پر بدلہ دیا جانا ممکن تھا۔
تیسرا سبب:....حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین کوئی ایسا سبب نہیں تھا جس کی وجہ سے دوستی رکھتے اورپھر اپنا مال خرچ کرتے [جان و مال سے نثار ہوتے] سوائے ایمانی سبب کے۔آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے نصرت نہیں کی جیسے ابو طالب نے قرابت کی وجہ سے نصرت کی تھی۔ بلکہ آپ کا عمل کامل اخلاص کے ساتھ صرف اور صرف اللہ کی رضامندی کے حصول کے لیے ہوا کرتا تھا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے :
﴿ اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰیo وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ [اللیل ۱۷۔۲۱]
’’وہ تو صرف اپنے رب بلندو برتر کی رضامندی کے لیے دیتاہے ۔ اوریقیناً عنقریب وہ راضی ہو جائے گا ۔‘‘
ایسا ہی معاملہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بھی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں ۔اور کبھی بیوی کو اپنے شوہر پر خرچ کرنا پڑتا ہے ؛ بھلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی دوسرا بھی ہو۔
بالفرض اگر مان بھی لیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے ؛ کبھی ان اسباب کی طرف فعل کو
[1] صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، باب قول النبی صلي اللّٰه عليه وسلم’’ سدوا الابواب الا باب ابی بکر‘‘ (ح:۳۶۵۴)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۲)۔
[2] سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ، باب الرخصۃ فی ذلک(حدیث:۱۶۷۸)، سنن ترمذی، کتاب المناقب، باب(۱۶؍۴۳)، (حدیث:۳۶۷۵)۔