کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 716
میں کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا، مگر دین اسلام کی بنا پر جو دوستی استوار کی جائے وہی اچھی ہے۔ مسجد کی جانب کھلنے والی سب کھڑکیاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کھڑکی کے سوا بند کردی جائیں ۔‘‘[1] بخاری و مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ صحبت ورفاقت اور انفاق مال کے اعتبار سے ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے سب سے بڑے محسن ہیں ۔‘‘ اور بخاری میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا تو میں نے نبوت کا اعلا ن کہ: ’’ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں ۔‘‘ تم نے مجھے جھٹلایا ۔ اور انہوں نے اپنے مال و جان سے میری خدمت کی۔ پس کیا تم میرے لیے میرے دوست کو چھوڑ دو گے یا نہیں ۔‘‘ دو مرتبہ(یہی فرمایا)۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے نہیں ستایا۔‘‘ [البخاری ۵؍۵] اور صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا، جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے ہوا۔‘‘ تو اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے ‘ اور عرض گزار ہوئے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اور میرا مال تو صرف آپ کے لیے ہی تو ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ] امام ترمذی رحمہ اللہ نے بروایت صحیحہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صدقہ کا حکم دیا ۔ اتفاق سے میرے پاس مال موجود تھا۔ میں نے کہا اگر میں کبھی صدقہ دینے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ سکا تو وہ آج ہی کا دن ہوگا۔ چنانچہ میں نے آدھا مال لا کر آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔ نبی کریم نے پوچھا ’’گھر میں کیا چھوڑا ؟ ‘‘ عرض کیا: یا رسول اللہ ! اس کے برابر۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سب مال لا کر بارگاہ ِنبوی میں حاضر کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ ! گھر میں کیا باقی رکھا؟‘‘ عرض کیا:اﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے کہا:’’آئندہ میں کبھی آپ کا مقابلہ نہیں کروں گا۔‘‘[2] یہ نصوص صحیح ‘ متواتر اور صریح ہیں ‘اور اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی میں اپنا مال خرچ کرنے میں سب لوگوں سے پیش پیش رہتے تھے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ ایسا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آپ پر احسانات تھے ؛ جب مکہ میں بھوک کی وجہ
[1] سنن ترمذی، کتاب المناقب ، باب(۱۵؍۳۴)، (حدیث:۳۶۶۱)، سنن ابن ماجۃ۔ المقدمۃ۔ باب فضل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۹۷)، من طریق آخر۔