کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 715
ہوں ۔ایک کہنے والا کہہ رہا ہوکہ یہ ابودحداح رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور دوسرا کہہ رہا ہو: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ تو یہ دوسرے قول والے کی تائید قرآن سے ہوتی ہے۔ اور اگراس آیت کو ان دونوں حضرات کے لیے عام سمجھا جائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس آیت کی فضیلت میں داخل ہونے کے حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ سے زیادہ حق دار ہیں ۔[ لہٰذا ان مفسرین کا قول زیادہ قرین صحت و صواب ہے جو کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس لیے آپ امت بھر میں اتقیٰ و اکرم تھے۔[دلدار]]
اور یہ کیونکر نہیں ہوسکتا جب کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا، جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے ہوا۔‘‘[1]
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امت کے مال سے ایسا فائدہ حاصل ہونے کی نفی کی ہے جیسا فائدہ آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے حاصل ہوا تھا۔تو پھراصلی اور فائدہ بخش اموال کو چھوڑ کر فاضل اموال کو اس آیت کے عموم میں کیسے داخل کیا جاسکتا ہے؟
دوسری وجہ:....جب سب سے بڑا متقی وہی تھا جس نے اپنا مال دیا اور تزکیہ نفس کیا؛وہ مخلوق میں سب سے بڑا با عزت اور متقی تھا؛ تو وہی لوگوں میں سب سے افضل بھی ہوا۔اس آیت میں دو قول مشہور ہیں ۔اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد] مخلوق میں سب سے زیادہ عزت والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔اور شیعہ کایہی عقیدہ ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے۔ پس پھر یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ کی مخلوق میں ان دوحضرت سے بڑھ کر کوئی متقی اور عزت والا ہو۔ان دونوں میں سے کوئی ایک ایسا نہیں جو اس آیت کے موجب میں داخل ہو۔جب یہ ثابت ہوگیا کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ضرور ایسا ہونا چاہیے جو اتقی کے معنی و مفہوم میں داخل ہو تو واجب ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس آیت کے موجب میں داخل ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت آپ اس تعریف و تفسیر کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس کے کئی ایک اسباب ہیں :
پہلا سبب:....اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴾۔[اللیل ۱۸]’’ جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے ۔‘‘صحاح ستہ اور دوسری کتابوں میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ اور اس باب میں آپ سب صحابہ سے بڑھ کر پیش پیش رہتے تھے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں اپنے سر پر ایک کپڑا باندھے ہوئے گھر سے نکلے؛ مسجد میں آئے اور منبر پر بیٹھ کراللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور پھر فرمایا:
’’کسی شخص نے اپنی جان و مال سے مجھ پر اتنا احسان نہیں کیا جتنا ابوبکربن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما نے کیا ہے۔‘‘ اگر
[1] مستدرک حاکم(۳؍۲۸۴) سیرۃ ابن ہشام(ص:۱۴۶۔۱۴۷)۔
[2] سیرۃ ابن ہشام(ص:۱۴۷)۔