کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 714
بہت سارے علماء کرام رحمہم اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ : یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اپنی سند سے حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ایسے ہی ابن ابی حاتم اور ثعلبی رحمہما اللہ نے بھی حضرت عبداللہ اورسعید بن مسیب رحمہما اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ : ہم سے ہمارے والد نے حدیث بیان کی ؛ ان سے محمد بن ابی عمر عدنی نے ‘ وہ محدث ابن عیینہ سے؛وہ حضرت عروہ رحمہ اللہ کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سات ایسے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جن کو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے جرم میں ستایا جاتا تھا۔ ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
بلال۔ عامر بن فہیرہ۔ نہدیہ۔ بنت نہدیہ۔ زنیرہ۔ ام عمیس رضی اللہ عنہم ۔ بنی مؤمّل کی ایک لونڈی۔[1]
محدث سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’زنیرہ رومی الاصل اور بنی عبد الدار کی مملوکہ تھی۔ جب اسلام لائیں تو ان کی بصارت جاتی رہی۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ لات و منات نے اسے اندھا کردیا۔ زنیرہ نے کہا میں لات و منات کو معبود نہیں تصور کرتی چنانچہ اﷲتعالیٰ نے ان کو دوبارہ قوت بینائی عطا فرمائی۔[2]
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خریدا تو وہ پتھروں میں دبے ہوئے تھے۔ ان کے مالک نے کہا اگر کوئی شخص مجھے ایک اوقیہ بھی دے تو میں بلال رضی اللہ عنہ کو فروخت کردوں گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ اگر آپ ایک سو اوقیہ بھی طلب کریں تو میں دے کر انھیں خرید لوں گا۔ فرماتے ہیں اسی ضمن میں مذکورہ صدر آیت: ﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾ آخر سورت تک نازل ہوئی۔
جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو اس وقت آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے، وہ سب آپ نے راہِ الٰہی میں صرف کردیے ۔کئی اور وجوہات بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے:
پہلی وجہ :....فرمان الٰہی ہے : ﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾؛اور یہ بھی فرمایا ہے: ﴿إِن أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ ﴾ بیشک تم میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘تو یہ ضروری ہے کہ امت کا سب سے بڑا متقی اس آیت کے ضمن میں داخل ہو؛ اوروہی اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا بھی ہوگا۔ کوئی شخص اس بات کا قائل نہیں کہ حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ سابقین اولین مہاجرین ؛حضرت ابوبکر و عمر‘عثمان وعلی رضی اللہ عنہم سے زیادہ افضل اور عزت والے تھے ۔بلکہ تمام امت کیا اہل سنت اورکیا غیراہل سنت سب کا اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا صحابہ کرام اوران کے امثال مہاجرین حضرت ابو دحداح رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ تو پھر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ بڑا متقی جس نے زکواۃ ادا کرکے تزکیہ نفس کیا ہے ‘وہ ان ہی میں سے ایک ہو۔
٭ اس بات کا دعویدار کہتا ہے کہ :یہ آیت حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔جب کسی مسئلہ میں دو قول
[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابۃ۴؍۵۹ میں حضرت ابودحداح انصاری کے حالات زندگی تحریر کیے ہیں ۔امام احمد بن حنبل ‘ امام بغوی اور حاکم نے حمادبن سلمہ کی سند سے حضرت انس سے یوں روایت کیا ہے : ’’ ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کی: یارسول اللہ ! فلاں انسان کے پاس کھجور کا ایک درخت ہے‘ اور میں اپنی دیوار بنانا چاہتا ہوں ۔ آپ اسے حکم دیں کے وہ درخت مجھے دیدے۔ تاکہ میں دیوار بنا سکوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ درخت اسے جنت میں ایک درخت کے بدلہ میں دے دو۔مگر اس آدمی نے انکار کردیا۔ پھر حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ اس کے پاس چلے گئے اور فرمانے لگے: یہ درخت مجھ پر میری چاردیواری کے بدلہ میں بیچ دو۔تو وہ اس پر راضی ہوگیا۔ حضرت ابودحداح واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: یارسول اللہ ! میں نے وہ کھجور اپنی چاردیواری کے بدلہ خرید لی ہے‘ اوروہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نے فرمایا: ’’ اوہ !ابو دحداح کے لیے جنت میں کتنی زیادہ اور میٹھی کھجوریں ہیں ۔‘‘ آپ نے یہ کلمہ کئی بار ارشاد فرمایا۔ المستدرک علی الصحیحین للحاکم ؛ کتاب البیوع؛ح 2137۔