کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 713
فصل:....آیت ﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾اور شیعہ کا استدلال
[ اعتراض ]: شیعہ مصنف کہتا ہے: آیت قرآنی﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾ حضرت ابو الدحداح رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے ۔ آپ نے اپنے ایک پڑوسی کے لیے ایک کھجور کا درخت خریدا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انسان کو اس کھجور کے درخت کے بدلہ میں جنت میں ایک درخت کی بشارت سنائی۔ جسے ابو دحداح نے سن لیا۔ اور ایک پورا باغ خرید کر اپنے پڑوسی کے لیے ہبہ کردیا۔ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بدلہ میں جنت میں ایک باغ کی خوشخبری سنائی ۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]
[ جواب]: ایسا کہنا جائز نہیں کہ یہ آیت حضرت ابو دحداح رضی اللہ عنہ [1]کے ساتھ مختص ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مفسرین ‘قرآنی علوم کے ماہرین‘اوراسباب نزول جاننے والے تمام علماء کرام کا اتفاق ہے کہ: مذکورہ سورت مکی ہے۔ اور ابوالدحداح رضی اللہ عنہ کا واقعہ بالاتفاق مدینہ منورہ میں پیش آیا۔کیونکہ آپ انصار میں سے ہیں ۔اور انصار کو شرف صحابیت مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد حاصل ہوا تھا۔اور باغ وبستان وغیرہ مدینہ میں ہی تھے۔ پھر یہ بات ممتنع ہوجاتی ہے کہ یہ آیت حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ کے قصہ کے بعد نازل ہوئی ہو۔
اگر کسی مفسر نے یہ کہا بھی ہے کہ یہ آیت ابو دحداح رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ آیت ابو دحداح کے واقعہ کو بھی شامل ہے۔ بعض صحابہ و تابعین جب کہتے ہیں کہ یہ آیت فلاں واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی تو اس سے ان کامقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ آیت اس واقعہ کو شامل ہے اور اس کے حکم پر دلالت کرتی ہے،یا یہ واقعہ بھی اس کے عموم حکم میں شامل ہے ۔بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت دو مختلف اسباب کی بنا پر دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ایک مرتبہ اس سبب کی بنا پر اور دوسری بار اس سبب کی بنیاد پر۔
اس قول کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ آیت دوبار نازل ہوئی ہو۔ان میں سے ایک بار حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہو۔ وگرنہ اہل علم میں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت ابو دحداح کے مسلمان ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کرنے سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔
[1] شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اسے حدیث نبوی نہیں ، بلکہ بصیغہ تمریض’’قیل‘‘ ذکر کیا ہے ۔ نیز احادیث القصاص(ح:۱۸)، میں ان الفاظ کو موضوع قرار دیتے ہوئے معناً درست قرار دیا ہے جیسا کہ اگلی حدیث ہے۔ تاہم یہ روایت مرفوعاً الکامل لابن عدی(۴؍۱۵۱۸)، میں بسند ضعیف مروی ہے ۔ تاہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے۔ دیکھئے: فضائل الصحابۃ للامام احمد(۶۵۳)، السنۃ لعبد اللّٰہ بن احمد(۸۲۱)، شعب الایمان(۳۶)، اس معنی کی مرفوعاً روایت مسند احمد (۲؍۷۶)، الشریعۃ للآجری (۱۳۳۳)، میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے۔
[2] سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، باب فی الخلفاء(حدیث:۴۶۳۴)، سنن ترمذی، کتاب الرؤیا۔ باب ما جاء فی رؤیا النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، المیزان والدلو (حدیث: ۲۲۸۷)۔