کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 712
’’ اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں ۔‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پر سکون نازل فرمایااور ان کی تائید کی تو اس سے شراکت کا وہم پیدا ہوتا ہے۔ [تو اس کا جواب یہ ہے ]: بلکہ یہاں پر ضمیر کامرجع رسول متبوع ہے۔اور آپ کی تائید و نصر ت آپ کے ساتھی کی تائید و نصرت بطور لازم ضرورت کے تحت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تائید ونصرت سے نوازا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی قسم کے حالات میں تائید ربانی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے شامل حال ہوئی، اسی بنا پرخوف و شدت کے مقامات پر تمام صحابہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یقین و ثبات میں سب سے آگے تھے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ: ’’اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان کو کرۂ ارضی پر بسنے والے سب انسانوں کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان بڑھ جائے گا۔‘‘[1] سنن میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا: ’’کیا تم میں سے کسی نے آج خواب دیکھا ہے؟‘‘ ایک صحابی نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ آسمان سے ایک ترازو اترا جس میں آپ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تولا گیا تو آپ بڑھ گئے، پھر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو تولا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ والا پلڑا جھک گیا۔پھر عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کو تولا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ والا پلڑا جھک گیا ۔پھر ترازو کوآسمانوں میں اٹھا لیا گیا۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا گیا توآپ نے فرمایا: ’’یہ خلافت نبوت ہے۔پھر اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اپنا ملک عطا کردے گا۔‘‘[2] ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر روزہ اورنماز کی وجہ سے سبقت نہیں لے گئے تھے ‘ بلکہ آپ کی سبقت کا سبب دل میں موجود ایمان تھا۔