کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 711
﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا ﴾ میں واحد کی ضمیر لائے ہیں ۔ اس لیے کہ یہاں پر کسی ایک پر اطمینان و سکون کا نزول دوسرے کی مشارکت کو مستلزم ہے۔ یہ محال ہے کہ ایک ساتھی پر اطمینان نازل ہو اور ساتھ دینے والے پر نہ ہو یا ساتھ دینے والے پر نازل ہو او راس ساتھی پر نازل نہ ہو جو کہ ہمیشہ سے جزء لاینفک اور ملازم ہے۔جب اس سکینہ کا حصول ان دونوں کے ساتھ ہی ممکن تھا تو ضمیر کو واحد لایا گیا۔ اور اس ضمیر کا اصل مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ‘ اور آپ کا صاحب و ساتھی آپ کے اتباع میں اس میں شریک ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ : اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پر سکون نازل کیا اور ان کی تائید کی ؛ اس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی شریک نبوت ہوں ۔جیسا کہ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہماالسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَ نَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًا ﴾ [القصص۳۵]
’’ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کر دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَo وَنَجَّیْنَاہُمَا وَقَوْمَہُمَا مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمo وَ نَصَرْنَاہُمْ فَکَانُوْا ہُمُ الْغَالِبِیْنَo وَآتَیْنَاہُمَا الْکِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَo وَہَدَیْنَاہُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ [الصافات۱۱۴۔۱۱۸]
’’اور بلا شبہ یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسا ن کیا ۔ اور ہم نے ان دونوں کو اور دونوں کی قوم کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دی۔ اور ہم نے ان کی مدد کی تو وہی غالب ہوئے۔اور ہم نے ان دونوں کو نہایت واضح کتاب دی ۔ اور ہم نے ان دونوں کو سیدھے راستے پر چلایا ۔‘‘
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ان دو انبیاء کرام علیہماالسلام کا ذکر کیا؛ پھر اس چیزکا ذکر کیا جس میں ان کی قوم بھی ان کے ساتھ شریک تھی۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [فتح ۲۶]
’’ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مؤمنین پر اپنا سکون نازل فرمایا ۔‘‘
اس لیے کہ یہاں پر اس کلام میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کا تقاضا یہ ہو کہ جب یہ دونوں نصرت سے سرفراز ہوکر نجات پا گئے تھے تو یہ نجات نصرت ان کی قوم کو بھی حاصل ہوگئی تھی۔پھر جو چیز ان دونوں کیساتھ خاص تھی ؛ اسے تثنیہ کے لفظ سے ذکر کیااس لیے کہ یہ دونوں حضرات نبوت میں شریک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو ایسے مفرد ذکر نہیں کیا جیسا کہ یہاں پر اس فرمان میں ہے:﴿وَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ﴾’’ اللہ اور اس کا رسول رضامند کرنے کے زیادہ مستحق تھے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ ﴾ [توبہ۲۴]