کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 710
متبوع ومطاع تھے اورابوبکر تابع و مطیع‘اوریہی آپ کے ساتھی بھی تھے۔ بنابریں جب متبوع کو سکون و اطمینان اور ملائکہ کی تائید و نصرت حاصل ہو گی تو لازماً تابع بھی اس میں شریک ہو گا۔ اس لیے یہاں جداگانہ طور پر نزول سکینہ کے اظہار کی ضرورت نہیں تھی؛کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کمال مصاحبت وملازمت حاصل تھے‘جو کہ اس تائید و سکون میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی مشارکت کو واجب کرتے تھے۔ بخلاف حنین کے دن پسپا ہونے والوں کے احوال کے۔ اس لیے کہ اس موقع پر اگر اللہ تعالیٰ اتنا ہی فرماتے کہ : اللہ تعالیٰ نے اپنا سکون اپنے پیغمبر پر نازل کیا ‘ اور اس سے آگے کچھ نہ فرماتے تو یہاں پر کوئی ایسا قرینہ نہیں تھا جس کی وجہ سے ہم کہہ سکتے کہ یہ سکون اہل ایمان پر بھی نازل ہوا ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ جب پسپا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اور ان کے لیے ایسی مطلق صحابیت بھی ثابت نہیں تھی جو ابوبکر جیسے کمال صحبت و ملازمت پر دلالت کرتی ہو۔ چونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مطلقاً صاحب کامل کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ جس سے عیاں ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ اور ہر حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وابستہ رہا کرتے تھے۔ خصوصاً ایسے نازک وقت اور انتہائی خوف کے حالات میں جب کہ دوستی نباہنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔تو اس سے بطریق دلالۃ النص واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نصرت و تائید ربانی کے وقت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک و سہیم ہوں گے۔اس لیے کہ جو کوئی بھی انتہائی سختی اور خوف و شدت کے حالات میں دوستی نبھائے؛ وہ ضروری طور پر نصرت اور تائید و مدد کے احوال میں بھی ساتھ نبھاتا ہے۔ تو پھر اس کے ساتھ کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ؛ اس لیے کہ احوال کلام خود اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ جب اس بات کا علم ہوگیا کہ آپ اس حال میں بھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور مؤید تھے ‘ تو یہ بات بھی بدیہی طور پر معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سکینہ نازل ہوا‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا لشکر اتار کر آپ کی تائید کی گئی ؛ جس کو آپ کے مذکورہ ساتھی ودوست نہیں دیکھ سکے ؛ اس میں باقی لوگوں کی نسبت بہت بڑی فضیلت ہے؛اور یہ قرآن کی بلاغت اور حسن بیان کی دلیل ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ ﴾ [التوبۃ ۶۲] ’’ اللہ اور اس کا رسول رضامند کرنے کے زیادہ مستحق تھے۔‘‘ یہاں پر اس جملہ :﴿اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ ﴾میں اگر ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضامندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ۔اور اگر اس کی ضمیر کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اللہ تعالیٰ راضی نہ ہوجائے۔ جب ان دونوں میں سے کسی ایک کی رضا مندی دوسرے کی رضامندی کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ؛ تو ان دونوں کی رضا مندی ایک ہی چیز سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ جب پہلا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی اس کی اتباع میں ہوجائے گی۔ جیسے یہا ں پر﴿اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ ﴾ میں اللہ تعالیٰ واحد کی ضمیر لائے ہیں ۔ ایسے ہی یہاں پر :