کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 709
’’اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔پھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے ۔‘‘ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پیٹھ پھیر کر چلے جانے کے بعد اہل ایمان اور اپنے نبی پر سکینہ نازل کرنے کاذکر فرمایا ہے ۔ پھر دوسرے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اہل ایمان پر سکینہ نازل کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اِِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ....ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ ....﴾ [الفتح ۱۔۴] ’’(اے نبی)بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے....وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِم﴾ [الفتح ۱۸] ’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا۔‘‘ دوسری بات : علماء کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے کہ اس آیت :﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ﴾میں ضمیر کس کی طرف راجح ہے۔ بعض کہتے ہیں : ضمیر کا مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : نہیں ‘بلکہ ضمیر کا مرجع حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔اس لیے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اقرب المذکورین ہیں ‘ اور آپ کو اطمینان و سکون کی ضرورت زیادہ تھی۔تو آپ پر بھی ایسے ہی سکون نازل ہوا جیسا کہ بیعت رضوان کے موقع پردرخت کے نیچے اہل ایمان پر سکون و اطمینان نازل ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں اس سے مستغنی تھے؛ اس لیے کہ آپ کو کمال اطمینان حاصل تھا۔بخلاف یوم حنین کے؛ اس لیے کہ اس دن آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ کیونکہ جمہور صحابہ پسپا ہوچکے تھے؛ اور دشمن آپ کی طرف بڑھ رہا تھا‘اور آپ اپنی خچر کو دشمن کی طرف ہانک رہے تھے۔ پہلے قول کی بنیاد پر ضمیر کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بھی ہے: ﴿ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا ﴾’’اور ایسے لشکر سے ان کی مدد کی جسے تم نے نہیں دیکھا۔‘‘ اس لیے کہ سیاق کلام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر تھا؛ اس لیے جداگانہ طور پر نزول سکینہ کے اظہار کی ضرورت نہیں تھی۔کیونکہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع و مطیع اور رفیق و مصاحب تھے۔لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ :جب آپ نے اپنے ساتھی سے کہا:﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾’’ بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے‘‘: تو[اﷲتعالیٰ کی معیت دونوں کو حاصل تھی]۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم