کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 708
میں معنوی صحبت حاصل تھی۔پس اس معنوی صحبت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تھا۔ اگر کوئی انسان بعض شہروں میں یا بعض اوقات میں اکیلا ہو؛اور وہ اس حق پر قائم ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ؛ اور لوگ اس پر اس کی مدد نہ کریں ۔پس بیشک اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اور اس کا اس آیت میں معنوی طور پر حصہ ہوتا ہے : ﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ۴۰] ’’اگر تم ان(نبی صلی اللہ علیہ وسلم )کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے ۔‘‘ ’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے: گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت سے مراد حقیقت میں آپ کے دین کی نصرت ہے جو دین آپ لیکر آئے ہیں ؛ خواہ کوئی جہاں کہیں بھی اور کسی بھی زمانہ میں ہو۔پس جو کوئی اس نصرت دین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا موافق ہو؛ اسے معنوی صحبت حاصل ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان اس دین کو ایسے قائم کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ؛ تو بیشک اللہ تعالیٰ اس دین کے ساتھ ہوتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے ہیں ‘اور جو انسان اس دین کو قائم کرتا ہے۔ اس سچے متبع رسول کے لیے اللہ تعالیٰ ایسے ہی کافی ہوجاتا ہے جیسے اپنے رسول کے لیے کافی تھا۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الأنفال ۶۴] فصل:....[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یقین و ثبات] [ اعتراض ]:شیعہ مصنف کا یہ اعتراض کہ آیت کریمہ[ ﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾] ’’ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مؤمنین پر اپنا سکون نازل فرمایا ‘‘]۔ میں سکینہ نازل کرنے کا ذکر فرمایا تو اس میں واضح طور پر اہل ایمان کو سکون و اطمینان کے مورد میں آپ کا شریک قرار دیاہے، مگر آیت زیر تبصرہ میں یہ صراحت موجود نہیں ۔ اس سے بڑھ کر کوئی اور نقص نہیں ہوسکتا۔‘‘ [ جواب]:پہلی بات: رافضی مصنف اپنے تئیں یہ تصور کروانا چاہتا ہے کہ سکون نازل ہونے کاذکر متعدد بار ہوا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ تذکرہ صرف حنین کے موقعہ پر ہوا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَo ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا ﴾۔[التوبہ ۲۵۔ ۲۶]
[1] عن أنسِ بنِ مالِک رضی اللہّٰ عنہ فِی: البخاری 4؍26کتاب الجِہادِ، باب من حبسہ العذر عنِ الغزوِ۔سننِ أبِی داؤود3؍17۔18 کتاب الجِہادِ، باب فِی الرخصۃِ فِی القعودِ مِن العذر۔سنن ابن ماجہ 2؍923 ۔کتاب الجِہادِ، باب من حبسہ العذر عنِ الجِہاد۔ وحدیث آخر بِألفاظ مقارِب عن جابِرِ بنِ عبدِ اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ فِی: مسلِم3؍518۔ کِتاب الإِمارۃِ، باب ثوابِ من حبسہ عنِ الغزوِ مرض و عذر آخر۔