کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 707
نہیں تھی جس میں متابعت نہ پائی جاتی ہو۔ایسی صحبت تو کافرکے ساتھ بھی ہوسکتی ہے جب وہ کسی مؤمن کے ساتھ چلے۔مگر اللہ اس کے ساتھ نہیں ہوتا۔بلکہ یہ معیت باطنی معیت تو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اقتداء اور محبت پائے جاتے تھے۔
پس اسی لیے جو کوئی رسول کا سچا متبع ہوتا ہے؛تو اللہ تعالیٰ اس کی اتباع کے حساب سے اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾[الأنفال ۶۴]
’’اے نبی! بے شک آپ کو اللہ ہی کافی ہے۔ اوران مومنوں کو بھی جنہوں نے آپ کی اتباع کی۔‘‘
یعنی اللہ آپ کوبھی کافی ہے ‘اور آپ کے ماننے والے اہل ایمان کو بھی کافی ہے۔ پس اہل ایمان میں سے جو کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کریگا اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجائے گا یہ معنی ہے اللہ تعالیٰ کی معیت کا۔
پس یہ کفایت مطلقہ اتباع مطلق کے ساتھ معلق ہے۔اور ناقص ناقص کیساتھ ۔پس جب آپ کے بعض اتباع کاروں کو اس اتباع کی وجہ سے لوگوں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کفایت کرجاتا ہے اوروہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔اور اس کے لیے اس آیت کی معنویت میں حصہ ہوتا ہے :
﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ ۴۰]
’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے :گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
اس لیے کہ اس آدمی کا دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موافقت کرتا ہے۔اگرچہ وہ جسمانی طور پر آپ کے ساتھ نہیں ہوتا ؛ مگر دل کا تعلق ہی اصل اور مقصود ہوتا ہے۔
جیسا کہ صحیحین میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بیشک مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ نہ ہی تم کوئی منزل طے کرتے ہو اورنہ ہی کوئی وادی پار کرتے ہو ‘ مگر وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ’’اوروہ مدینہ میں رہ کر بھی ہمارے ساتھ ہیں ‘‘؟
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں وہ مدینہ میں رہ کر بھی ؛انہیں عذر نے روک رکھا ہے۔ ‘‘[1]
یہ لوگ اپنے دلوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرام کے ساتھ غزوہ میں شریک تھے۔ ان لوگوں کو غزواۃ