کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 702
ہے کہ ان کے داعی کا اپنے مذہب کی نجاست؛جو کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے ادیان اور شرائع مطہرہ کے برعکس ایک دین ہے؛ کی طرف دعوت دینے کا طریق کار یہ ہے کہ : داعی کو چاہیے کہ لوگوں کو دعوت دیتے وقت ان کے احوال اور مذہب کا استعمال کریں ۔ان کی اپنے ہر داعی کو جو نصیحت ہوتی ہے وہ میں ان کے ہی الفاظ میں بغیر کسی کمی و بیشی کے نقل کرتا ہوں ؛ تاکہ ان کے کفر اور تمام انبیاء و مرسلین کے دین اور تمام ملتوں سے ان کی نفرت اور حسد کااندازہ ہوسکے۔یہ لوگ اپنے داعی سے کہتے ہیں :
’’ تم پر واجب ہوتا ہے کہ اگر جس کو دعوت دے رہے ہو ؛ اسے مسلمان پاؤ تو اس کے سامنے اپنا دین و شعار شیعیت ظاہر کرو ۔اور اس کی شکار کرنے کا پہلا حربہ سلف کے ظلم کی صورت میں استعمال کرو؛کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔ان کی خواتین اور بچوں کو قیدی بنایا ؛اوراس کے ساتھ ہی بنی عدی ‘ بنی تیم ‘ بنی امیہ اور بنی عباس سے برأت کااظہارکرو۔اور تشبیہ و تجسیم ؛ بداء و تناسخ اوررجعت کا عقیدہ ظاہر کرو۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرو کہ وہ علم الغیب جانتے ہیں ؛اورکائنات کی تخلیق کا کام آپ کے سپرد ہے۔اور اس طرح کے دیگر شیعہ کے عجیب و غریب عقائد اور جہالتوں کااظہار کرو۔اس طریقہ سے لوگ بہت جلد آپ کی دعوت قبول کریں گے۔یہاں تک کہ جب اپنے مقصد میں اور اپنے بعدآنے والے اپنے ثقہ لوگوں کے لیے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوجاؤ ؛ تو پھر انہیں تدریجاً چیزوں کے حقائق کی طرف لیکر جاؤ۔اور ایسا نہ کرنا جیسے مسیح نے اپنی ناموس میں تورات اور یوم السبت کے عقیدہ کو جھٹلانے میں جلدی کی۔پھراسی جلد بازی میں وہ حد سے نکل گیا تو وہ حادثہ پیش آیا جو سب کے سامنے ہے۔ یعنی کہ بنی اسرائیل نے آپ کو جھٹلانے کے بعد قتل کر دیا ۔اور اس کے دین ومذہب کو رد کردیا۔اوروہ لوگ متفرق ہوکر بٹ گئے۔جب آپ محسوس کریں کہ بعض شیعہ آپ کی دعوت پر کان دھرنے لگے ہیں ؛اور اسے ماننے لگے ہیں ؛ تو پھر اسے مثالب علی اور اولاد علی کی راہ پر لاکھڑا کرو۔اور اسے بتاؤ کہ حق کیا ہے ؟اورحق کس کے لیے ہے؟ اور اہل ملت محمدیہ اور دوسرے انبیاء کے تمام امور کو باطل بتاؤ۔اور جس کسی کو صابیء پاؤ تو اس کو پھنسانے کے لیے ستاروں کی تعظیم کے راستے سے داخل ہوجاؤ۔بیشک یہ ہمارا دین ہے؛اورہمارے مذہب کے اکثر معاملات پہلے وار پر منحصر ہوتے ہیں ۔ اور اسے کواکب کی تعظیم کی راستہ سے بہت زیادہ قریب لانے میں مدد ملے گی۔اور جس کسی کو مجوسی پاؤ توآپ اس کے ساتھ اصل میں متفق ہیں ۔چوتھے درجہ میں آگ اور نور ؛اور شمس و قمر کی تعظیم آتی ہے۔ پھر اسے وہی پرانی کہانی سناؤ۔ او راسے بتاؤ کویہ نہر اسی کی طرف سے ہے جسے وہ جانتے ہیں ۔اور ان کے یقین کے مطابق ثالث مکنون اور ظلمت مکتوب وہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صابی تمام امتوں سے بڑھ کر ہمارے قریب؛ اور ہمارے محبوب ہیں ۔اوراگر ایسا نہ ہوسکے تو پھر اس کی جہالت کی وجہ سے اس پر تنقید کرو۔‘‘
[1] اعتراف کیا ہے ۔ الکشی ایک مشہور شیعہ مؤرخ اور حالات ِ زندگی کے ماہر ہیں ، جس کا شمار چوتھی صدی کے علماء میں ہوتا ہے ۔ وہ اپنے مذہب کے بعض علماء سے یہ نص نقل کرتا ہے ؛ وہ کہتا ہے:’’ بعض اہل علم نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ : بیشک عبد اللہ بن سباء یہودی تھا؛ اس نے اسلام کا اظہار کیا ، اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوی کرنے لگا اور جب وہ یہودی تھا تویوشع بن نون کے متعلق غلو کرتے ہوئے کہا کرتا تھا:’’ وہ موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہیں ‘‘ اور اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگا۔ یہی وہ پہلا انسان نے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے فرض ہونے کا قول ایجاد کیا۔اور ان کے دشمنوں سے برأت کا اظہار کیا ۔ اور ان کے مخالفین کا پردہ چاک کیا ، اور انہیں کافر قراردیا ۔ سواس بنیاد پر شیعہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ :’’ شیعیت اور رافضیت کی اصل یہودیت سے مأخوذ ہے۔‘‘ (رجال الکشی ص: ۷۱)
یہ عبارت رافضی علماء کے ہاں مشہور ہے ، جسے ان کے علماء نقل کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان کی معتمد اور ثقہ کتابوں میں سے کئی ایک میں اس کا ذکر آیا ہے ۔ ۔شیعہ عالم۔ اشعری قمی نے ’’ المقالات و الفرق (ص۲۱۔۲۲)میں سے ذکر کیا ہے ، اور نو بختی نے ’’ فرق الشیعۃ(ص ۲۲) میں ذکر کیا ہے ، اور مامقانی نے ’’ تنقیح المقال (۲؍ ۱۸۴)‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے‘‘۔
یہ رافضیوں کے بڑے علماء اور مؤرخین ابن سباء کا یہودی ہونا تسلیم کرتے ہیں ۔ اور یہ بات مانتے ہیں کہ جب تک وہ یہودی تھا حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے وصیِ موسیٰ علیہ السلام ہونے کا کہا کرتا تھا۔ اور اپنے اسلام کے اظہار کر دور میں یہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگاکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں ۔ اور یہ کہ یہی وہ پہلاانسان ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام ہونے کا نعرہ بلند کیا اور ان کے مخالفین سے برأت کا اظہارکیا ۔پھر اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ :’’ اسی وجہ سے رافضیت کو یہودیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔‘‘ رافضیوں کے ان بڑے علماء نے جس بات کا اعتراف کیا ہے ، ہم اسے یہاں پر درج کررہے ہیں ۔[دراوی جی ]