کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 699
بن جائیں ۔اس کے برعکس جب اس طرح سے موافقت اور اتباع کااظہار بھی کرے جس کی وجہ سے لوگ دشمن بن جائیں اور ان کی دشمنی پر صبربھی کرے؛ اور پھر اپنی اس موافقت پر اپنا مال بھی خرچ کرے؛ اوراس مال خرچ کرنے کا کوئی دنیاوی سبب بھی موجود نہ ہو۔اس لیے کہ آپ کے مال خرچ کرنے سے مکہ میں آپ کو کوئی دنیاوی فائدہ حاصل نہیں ہوا؛ نہ ہی مال ملا‘ نہ ہی مقام و مرتبہ ؛ نہ ہی کوئی دوسری چیز۔ بلکہ دنیاوی چیزوں میں سے آپ کو آزمائش و امتحان اور تکلیف و شدائد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملا۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی کوئی انسان کسی دوسرے کے ساتھ اپنی موافقت کااظہار کسی دنیاوی یا دوسری غرض کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی اس لیے بھی موافقت کااظہار کرسکتا ہے تاکہ حیلہ کرکے اور چال چل کر اسے قتل کردے۔ [یا پھر کوئی تکلیف پہنچائے]۔ مکہ مکرمہ میں ان جملہ امور میں سے کوئی ایک بھی بات نہیں ہوئی۔اس لیے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیا کرتے تھے وہ ایمان لانے کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی سب سے بڑھ کر دشمنی رکھنے والے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ان لوگوں سے کوئی ایسا تعلق بھی ہر گزنہیں تھا جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے۔ اور نہ ہی اہل مکہ کو ایسے کام کرنے کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کوئی ضرورت تھی۔ بلکہ وہ خود اس بد بختی پر پوری طرح سے قدرت رکھتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات یا دن میں یاخلوت یا جلوت میں اجتماعی یا انفرادی حالت میں کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔حالانکہ-معاذاللہ ؛ [جیسے رافضی خباثت بکتے ہیں ]- اگر آپ چاہتے تو زہر دینا یا قتل کرنا یا کوئی اور چال چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف دینا حضرت کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا۔ ٭ مزید برآں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت اور تائید حاصل تھی؛ اس کا تقاضا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی برائی کا ارادہ کرنے والے انسان سے آپ کو مطلع کردیتے ؛اگر کسی کا کوئی برا ارادہ ہوتا۔جیسا کہ: ۱۔ اللہ تعالیٰ نے ابی عزہ کے ارادہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کر دیا تھا جب وہ ایمان کا اظہار کرتے ہوئے برے ارادہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیاتھا۔اتنا تو ایک ہی مجلس میں ہوگیا۔ ۲۔ایسے ہی حنین کے موقع پر جب مسلمان پسپا ہوگئے تو حجبی برے ارادہ سے آگے بڑھا ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں خبر دیدی۔ ۳۔فتح مکہ کے موقع پر عمیر بن وہب جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اچانک حملہ کرنا چاہتا تھا اوروہ اپنے آپ کومسلمان ظاہر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آگے بڑھ رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس سے آگاہ کردیا۔ ۴۔غزوہ تبوک سے واپسی پر جب منافقین نے چاہا کہ آپ کی اونٹنی کی مہار کاٹ کر آپ پر حملہ کردیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے ارادہ سے آگاہ کردیا ‘[اور ان لوگوں کے نام بھی بتادیے ]۔ ٭ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سفر و حضرت میں دن و رات ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ خلوت وجلوت میں آپ کے