کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 698
اختیار سے ہجرت کی تھی جب مکہ میں ان پر ایمان لانے کی پاداش میں تکالیف ڈھائی گئیں ۔اس وقت مکہ میں کوئی اپنے اختیار کے بغیر اسلام قبول نہیں کرتا تھا۔بلکہ وہاں مشکلات اور تکلیف کے احتمال کے باوجود کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو ایمان کا اظہار کرتا ہو اورا س کے دل میں کفر پوشیدہ ہو۔خصوصاً جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہجرت تک کرنا پڑی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت کی تووہاں پر آپ کوقوت وطاقت حاصل ہوگئی۔جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوا؛ اورانصاری قبائل میں اسلام پھیل گیا تو بعض وہ لوگ جو کہ صدق دل سے ایمان نہیں لائے تھے وہ اپنی قوم کے ساتھ موافقت کے لیے اسلام کا اظہار کرنے لگے۔اس لیے کہ اہل ایمان و قوت و سطوت حاصل ہوگئی تھی۔ اور ان کے ہاتھ میں اب تلوار بھی آگئی تھی ؛اوریہ کفر کی وجہ سے لوگوں سے جہاد بھی کرتے تھے۔
٭ ثالثاً: عام طور پر بنی آدم کے اہل خرد و دانش اور اصحاب عقل لوگ جب کچھ عرصہ تک دوسروں کے ساتھ رہتے ہیں تو انہیں دوسرے انسان کی محبت اور دوستی یا نفرت اور دشمنی کا پتہ چل جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیرہ برس تک ان کی صحبت میں رہے۔توکیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پتہ نہیں چل سکا تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے دوست ہیں یا دشمن ؟اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک دار خوف میں اکٹھے بھی ہیں ۔کیا یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قدح نہیں ہے؟
٭ پھر ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : تمام لوگ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے لیکر وقت وفات تک آپ کا سب سے بڑا دوست اورآزاد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والی ہستی جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق ہیں ۔آپ نے دوسرے لوگوں کو بھی یہ دعوت پیش کی حتی کہ وہ بھی ایمان لے آئے۔ آپ نے کمزور مسلمانوں کومظالم سے نجات دلانے کے لیے اپنا مال خرچ کیا۔جیسے حضرت بلال رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ نیز آپ موسم حج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلتے اور مختلف قبائل کو اسلام کی دعوت پیش کرتے ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ صبح یا شام کو آپ کے گھر تشریف لاتے۔آپ کو کفار نے ایمان لانے پر مشق ستم بھی بنایا ۔حتی کہ آپ ہجرت کی غرض سے نکلے تو راستہ میں عرب امراء میں سے ایک امیر ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ اپنے علاقہ کا بڑا انسان تھا۔ اس نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے ؟........یہ پوری روایت پہلے گزر چکی ہے۔
توکیا پھر جس انسان کے پاس ادنیٰ سی عقل بھی ہو؛ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دوستی ومحبت جانثاری اور فدائیت میں معمولی سا شک بھی کرسکتا ہے؟حالانکہ آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور دوستی کی وجہ سے آپ نے اپنی قوم اور خاندانی سے دشمنی مول لے رکھی تھی۔اوران کی طرف سے ملنے والی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے اور اہل ایمان بھائیوں میں سے ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے۔
٭ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی دوسرے سے دوستی تو رکھتے ہیں ‘مگر مشکلات اور امتحان کے وقت میں ؛ لوگوں کی دشمنی مول لیکر ان کاساتھ نہیں دیتے۔ اورنہ ہی کسی ایسی چیز کااظہار کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ دشمن