کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 697
اَعْلَمُ بِاِِیْمَانِہِنَّ فَاِِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِِلَی الْکُفَّارِ﴾ [الممتحنۃ ۱۰] ’’اے ایمان والو!جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو؛دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایماندار معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو۔‘‘ ٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں جو صحابہ معروف و مذکور ہیں ‘ اور جن کی دینداری کی وجہ سے مسلمان ان کی تعظیم کرتے ہیں ؛ یہ تمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے سچے مومن تھے۔الحمد للہ کہ مسلمانوں نے کبھی بھی کسی منافق کی تعظیم نہیں کی۔کسی انسان کے ایمان کا بھی ایسے ہی پتہ چل جاتا ہے جیسے اس باقی تمام احوال قلب دشمنی اور دوستی ؛ غم و خوشی ؛ بھوک و پیاس اور دوسرے امور کا پتہ چل جاتا ہے۔اس لیے کہ ان امور کے کچھ ظاہری لوازم ہیں ۔ اور ظاہری امور باطنی امور کو مستلزم ہوتے ہیں ۔یہ بات وہ تمام لوگ جانتے ہیں جنہوں نے اس کا تجربہ کیا ہواور اسے آزما یا ہو۔ ٭ [اولاً]:ہم اضطراری طور پر جانتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ‘ ابن عباس‘ انس بن مالک ‘ابو سعید خدری ؛ اور جابر رضی اللہ عنہم اور ان کے امثال دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سچا ایمان رکھنے والے؛آپ کی تعظیم کرنے والے اور آپ سے سچی محبت کرنے والے تھے۔ ان میں کوئی بھی منافق نہیں تھا۔ تو پھر ان خلفاء راشدین کے یہ احوال کیونکر معلوم نہیں ہوسکتے تھے جن کے ایمان بالرسول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اورنصرت کی خبریں زمین کے مشرق ومغرب میں معروف ہیں ۔ ٭ ایسی باتوں کو تو معروف ہوناچاہیے۔منافقین کا وجود ان پاکباز لوگوں کے ایمان میں شک و شبہ کا موجب و سبب نہیں بن سکتا جنہیں امت میں صداقت و امانت کے ساتھ قبولیت اور شہرت حاصل ہے۔بلکہ ہم ضروری طور پر سعید ابن مسیب ‘حسن بصری ‘ علقمہ ‘ اسود‘ مالک ‘شافعی ‘ احمد بن حنبل‘فضیل اور جنید رحمہم اللہ اور جو لوگ ان سے بھی کم مرتبہ کے ہیں ‘ ان کا مسلمان اورصاحب ایمان ہونا جانتے ہیں ۔تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اہل ایمان ہونا کیونکر معلوم نہیں ہوسکتا۔ اور ان بہت سارے لوگوں کا صاحب ایمان ہونا بھی جانتے ہیں جو ہمارے اصحاب میں سے ہیں اور ان کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا رہا ہے۔ ٭ اس موضوع پر کئی جگہ ہم مفصل بات کرچکے ہیں ۔اورہم نے یہ بیان کیا ہے کہ خبر دینے میں سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ جیساکہ کسی کا جھوٹی نبوت کا دعوی وغیرہ ؛ ایسے امور ہیں جو کئی اسباب کی بنا پر اضطراری طور پر معلوم ہوجاتے ہیں ۔ اسلام کے اظہار کاتعلق بھی اسی باب سے ہے؛ کوئی انسان سچا ہوتا ہے اور کوئی جھوٹا۔ ٭ ثانیاً: نیز ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : امام احمد رحمہ اللہ اور دوسرے علماء کرام نے لکھا ہے :ہمیں اس بارے میں کسی اختلاف کا کوئی علم نہیں ہوسکا کہ مہاجرین میں ایک بھی منافق نہیں تھا۔ اس لیے کہ مہاجرین نے اس وقت اپنے