کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 696
اِِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ﴾ [الممتحنۃ ۹]
’’اللہ تعالی تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس سے نکال دیا اور دیس سے نکال دینے والوں کی مدد کی ۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ : مشرکین مکہ نے اہل ایمان کو مکہ میں ایمان کے ساتھ قیام کرنے سے روک دیا تھا۔اوران لوگوں کے لیے ایمان کو ترک کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔پس ان لوگوں کوان کے ایمان کی وجہ سے دیس سے نکالا گیا۔ پس یہ دلیل ہے کہ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی کوبھی ایسے ہی نکالا تھا جیسے آپ کو نکالا تھا۔کفار نے صرف ان ہی لوگوں کو نکالا تھا جن کے ساتھ ان کی دشمنی تھی؛اپنے کافروں میں سے کسی ایک کو بھی انہوں نے نہیں نکالا ۔ پس اس سے بھی ظاہر ہوگیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت صحبت ِمحبت و ایمان موالات و دوستی تھی۔کفر کی صحبت نہیں تھی۔
٭ اگر اعتراض کرنے والا کہے کہ: یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ آپ ظاہری طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موافقت رکھتے تھے۔اوراس موافقت کا اظہار وہ انسان بھی کرسکتا ہے جو باطن میں منافق ہو؛ مگروہ بھی اصحاب کے لفظ میں داخل ہوتا ہے۔جیسا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض منافقین کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’ نہیں ؛ لوگ یہ کہتے پھریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو قتل کرتا ہے ۔‘‘
پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لفظ اصحاب میں بعض وہ لوگ بھی داخل تھے جو اصل میں منافق تھے۔
٭ اس سے کہا جائے گا کہ : ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں کہ مہاجرین میں کوئی ایک بھی منافق نہیں تھا۔اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ سچے اہل ایمان کی نسبت منافقین بہت کم تعداد میں تھے۔اور ان میں سے بھی اکثر کا حال اس وقت آشکار ہوگیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں قرآن نازل کیا۔اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ہر ایک کو شخصی طور پر نہیں جانتے تھے ؛ مگرجن لوگوں کا ان کے ساتھ میل جول تھا وہ جانتے تھے۔
کسی انسان کے باطن میں اہل ایمان ‘یا کافر ‘ یا یہودی اور عیسائی یا پھر مشرک ہونے کا علم طویل صحبت کی صورت میں کسی پر مخفی نہیں رہتا۔اس لیے کہ کبھی بھی کوئی انسان اپنی اندر کی بات نہیں چھپاتا مگر اللہ تعالیٰ اس کے چہرہ کے آثار اور زبان کی بول چال سے اسے ظاہر کردیتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَلَوْ نَشَائُ لَاَرَیْنَاکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِیمَاہُمْ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ﴾ [محمد۳۰]
’’اور اگر ہم چاہیں توآپ کو وہ لوگ دکھادیں ،سویقیناً آپ انھیں ان کی نشانی سے پہچان لیں گے: اورآپ انھیں بات کے انداز سے ضرور ہی پہچان لیں گے‘۔‘‘
٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفر چھپانے والا اپنے ٹیڑھے اور کمزورقول کی وجہ سے پہچانا جاتاہے۔جب کہ چہرہ کے آثار سے کبھی کوئی پہچان سکتا ہے اور کبھی نہیں ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِذَا جَائَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِِیْمَانِہِنَّاللّٰہُ