کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 693
[جواب]: ان سے کہا جائے گا: یہ بات معلوم شدہ ہے کہ : ’’صاحب کا لفظ ساتھی اور دوسروں سب کو شامل ہے۔ [اس آیت میں صاحب کا لفظ مطلق ساتھی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے]۔محض اس لفظ کے استعمال میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ کوئی دوست ہو یا دشمن ؛ یا پھر کافر ہو یا مؤمن ۔یہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب اس کے ساتھ وصف کو بھی ملا کر بیان کیا جائے۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وابن السبیل﴾ یہاں پر صاحب کا لفظ بیوی اور رفیق سفر دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے؛ اس میں کافر اور مؤمن کی کوئی تمیز نہیں کی گئی ۔اور نہ ہی اس فرق کی کوئی دلیل موجود ہے۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَالنجم اِِذَا ہَوٰی ٭مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی﴾ [النجم۱۔۲]
’’قسم ہے ستا رے کی جب وہ گرے ! تمھارا ساتھی نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ﴾ [التکویر۲۲]
’’اور تمھارا ساتھی ہرگز کوئی دیوانہ نہیں ہے۔‘‘
یہاں پر ساتھی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔اس لیے کہ آپ نے بشر کی مصاحبت کی تھی۔ بیشک جب آپ لوگوں کے ساتھی تھے؛ اور آپ کے اور لوگوں کی ما بین مشارکت تھی ؛ تو جو وحی آپ لیکر آتے اس کا نقل کرنا ممکن ہوا۔ اورایسے ہی آپ کی جو بات سنتے اس کے معانی سمجھ سکتے۔ بخلاف فرشتہ کے جو کہ ان کے ساتھ نہیں رہا؛ اس لیے کہ لوگوں کے لیے ممکن نہیں تھا کہ براہ راست اس سے تعلیمات اخذ کریں ۔
نیز یہ آیت اس بیان کو بھی متضمن ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی کی جنس سے ایک بشر ہیں ۔ اور اس سے بھی خاص بات یہ ہے کہ آپ عربی ہیں ‘ اور اسی قوم کی زبان میں مبعوث ہوئے ہیں ۔جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ ﴾ [التوبۃ ۱۲۸]
’’(لوگو)تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف انکو گراں معلوم ہوتی ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ﴾ [ابراہیم۴]
’’ ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے لیے بیان کر دے ۔‘‘
جب آپ ان کی صحبت میں رہے تھے تو ان لوگوں کی زبان بھی سیکھی تھی۔اور آپ کے لیے یہ ممکن تھا کہ ان لوگوں کی زبان میں ان سے بات کرسکیں ۔تو اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں کی طرف ان کی زبان میں ہی رسول بناکر بھیجا تا کہ لوگ آپ کی بات سمجھ سکیں ۔پس اس لحاظ سے یہاں پر صحبت کا ذکر کرنا ان پر مہربانی اور احسان کے باب سے تھا۔ بخلاف اس کے کہ صحبت کی جو اضافت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: