کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 692
اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کام تھے ؛ اور یہ حزن و ملال کی ممانعت آنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ایسے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس ممانعت کا حکم آنے سے پہلے غمگین ہونا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کام تھا۔اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کردیا تو اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی بھی غمگین نہیں ہوئے۔پس یہ کیفیت بھی ممکن ہے کہ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ غمگین نہ ہوئے ہوں ۔مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس لیے منع کیا ہو کہ کہیں آپ غمگین نہ ہوجائیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ آثِمًا اَوْ کَفُوْرًا ﴾ (الإنسان ۲۴) ’’اور ان میں سے کسی گناہ گار یا بہت ناشکرے کا کہنا مت مان۔‘‘ فصل: ....[روافض کی کج فہمی] [کج فہمی]:شیخ الاسلام مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بعض روافض کہتے ہیں :کہ﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔[التوبۃ۴۰]’’جب آپ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘کے الفاظ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان ثابت نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ صاحب‘‘ رفیق اور ساتھی کو کہتے ہیں ۔ساتھی کبھی ایماندار بھی ہوسکتا ہے ‘ اور کبھی کافر بھی۔[یہ ضروری نہیں کہ وہ ایماندار ہو]۔جیسا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ اضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰہُمَا بَنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَہُمَا زَرْعًاo کِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُکُلَہَا وَ لَمْ تَظْلِمْ مِّنْہُ شَیْئًا وَّ فَجَّرْنَا خِلٰلَہْمَا نَہَرًاo وَّ کَانَ لَہٗ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗٓ اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًاOوَ دَخَلَ جَنَّتَۃٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ ھٰذِہٖٓ اَبَدًا﴾۔....آگے تک....﴿قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗٓ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَکَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ [ثُمَّ سَوّٰیکَ رَجُلًا]﴾ (کہف ۳۲۔۳۷) ’’اور ان کے لیے ایک مثال بیان کیجیے، دو آدمی ہیں ، جن میں سے ایک کے لیے ہم نے انگوروں کے دو باغ بنائے اور ہم نے ان دونوں کو کھجور کے درختوں سے گھیر دیا اور دونوں کے درمیان کچھ کھیتی رکھی۔دونوں باغوں نے اپنا پھل دیا اور اس سے کچھ کمی نہ کی اور ہم نے دونوں کے درمیان ایک نہر جاری کر دی۔اور اس کے لیے بہت سا پھل تھاتو اس نے اپنے ساتھی سے، جب اس سے باتیں کررہا تھا، کہا میں تجھ سے مال میں زیادہ اور نفری کے لحاظ سے زیادہ باعزت ہوں ۔اور وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا، کہا میں گمان نہیں کرتا کہ یہ کبھی برباد ہوگا۔‘‘........’’اس کے ساتھی نے، جب کہ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا، اس سے کہا کیا تو نے اس کے ساتھ کفر کیا جس نے تجھے حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھرنطفہ کے ایک قطرے سے،[پھر تجھے ٹھیک ٹھاک آدمی کردیا]۔‘‘