کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 691
﴿ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی﴾(....آگے تک....) ﴿ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی٭قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی﴾ (طہ ۶۵۔۶۸)
انھوں نے کہا اے موسیٰ! یا تو یہ کہ تو پھینکے اور یا یہ کہ ہم پہلے ہوں جو پھینکے۔....’’تو موسیٰ نے اپنے دل میں ایک خوف محسوس کیا۔ہم نے کہا خوف نہ کر، یقیناً تو ہی غالب ہے۔ ‘‘
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول اور اس کے کلیم ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر بھی دی تھی کہ فرعون اور اس کے لشکری آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔اور آپ ہی غالب رہیں گے۔ پھر اس کے بعد بھی آپ کے دل میں خوف محسوس ہوا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ خوف محسوس کرنا صرف اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ سے جو وعدہ کیا تھا کہ آپ ہی غالب رہیں گے؛ اس وقت یہ بات آپ کے ذہن سے اوجھل ہوگئی تھی۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا غم کرنا اس کی ممانعت کا حکم آنے سے پہلے تھا۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ مَنْ کَفَرَ فَلَا یَحْزُنْکَ کُفْرُہٗ ﴾ (لقمان ۲۳)
’’اور جو کوئی کفر کرے پس اس کا کفر آپ کو غمگین نہ کرے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ﴾ (النحل ۱۲۷)
’’ اور ان پر غم نہ کر اور نہ کسی تنگی میں مبتلا ہو، اس سے جو وہ تدبیریں کرتے ہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿فَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ ﴾ (یس ۷۶)
’’ان کی باتیں آپ کو غمگین نہ کریں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍ ﴾ (فاطر۸)
’’سو آپ کی جان ان پر حسرتوں کی وجہ سے نہ جاتی رہے۔‘‘
اورہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کایہ بھی فرمان ہے:
﴿قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ﴾ (الانعام ۳۳)
’’ہم جانتے ہیں بیشک آپ کو وہ بات غمگین کرتی ہے جو وہ کہتے ہیں ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ آپ کو کفار و مشرکین کا کلام غمگین کرتا ہے۔اور اس سے منع بھی کیا گیا۔ اگر شیعہ قول کے مطابق دیکھا جائے تو جیسے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غمگین ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہیں ؛[یہی اعتراض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وارد ہوتا ہے ؛ مگر ہم کہتے ہیں ]:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان لوگوں کے کفریہ کلام پر غمگین ہونا